141

پنجابی یونین کے زیرِاہتمام پنجاب ہائوس میں سانحہ جلیانوالہ باغ کی یاد میں تقریب

میں آج اس عورت کو سلام پیش کرتا ہوں جس کی کہی ہوئی بات پورے ہندستان کی زبان بن گئی :بس کر دے جرمن، پت مک گئے نے ماواں دے ۔ہندوستانیوں کا انگریزوں سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ سانحہ جلیانوالہ باغ کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں لیکن آج تک اس کی تحقیقات نہیں ہوئیں: الیاس گھمن پنجاب ہاوس میں قائم بابا گورونانک دیو جی آڈیٹوریم میں پنجاب کے مختلف دنوں کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔میری کوشش ہے کہ اس سلسلے میں ہر روز ہی کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہو جس کے لیے تمام انتظام ادارے کی جانب سے کیا جاتا ہے: مدثر اقبال بٹ سانحہ جلیانوالہ باغ پنجاب ہی نہیں انسانیت کی تاریخ کا بھی ایک تاریک باب ہے جب برصغیر پر قابض انگریز حکمرانوں نے نہتے اور بے گناہ پنجابیوں پر گولی چلا دی۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود برصغیر کے عوام اس سانحہ پر برطانیہ سے بارہا سرکاری طور پر معافی کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن مہذب برطانیہ کے لیے یہ حقیقت قبول کرنا آسان نہیں کہ جب انگلستان میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو وہ متوازی طور پر ظلم کی ایک نئی تاریخ بھی رقم کر رہا تھا۔ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو سنہ 1919 میں برصغیر میں برطانیہ کا راج تھا۔ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں کچھ قوم پرست برطانوی راج کے نئے ٹیکسوں اور ہندوستانیوں کی فوج میں جبری بھرتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ عوام کی بڑی تعداد بیساکھی کے روایتی میلے میں شرکت کے لیے بھی وہاں موجود تھی۔اس وقت برطانوی راج نے بڑے عوامی اجتماعات کو روکنے کے لیے شہر میں مارشل لا نافذ کیا ہوا تھا۔ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے بریگیڈیئر جنرل آر ای ایچ ڈائر کو بھیجا گیا جنہوںنے لوگوں کو متنبہ کیے بغیر ہی گولی چلانے کا حکم دے ڈالا۔ جب تک سپاہیوں کی گولیاں ختم نہ ہوئیں فائرنگ جاری رہی۔اس افسوس ناک واقعے میں برطانوی سرکاری ذرائع کے مطابق 379 افراد ہلاک ہوئے لیکن برصغیر کے مورخین کا ماننا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 1000 سے زیادہ تھی۔اس سانحہ کے 100 برس مکمل ہونے پر اگرچہ اس وقت برطانوی وزیر اعظم ٹریزامے نے افسوس کا اظہار کیا لیکن باضابطہ معافی نہیں مانگی جس کا پاکستان اور ہندوستان کے شہری اور بالخصوص پنجابی ایک طویل عرصہ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1919 کا سانحہ جلیانوالہ باغ برطانوی انڈین تاریخ پر شرمناک داغ ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اس حادثہ خونچکاں سے متاثر ہوکر جلیانوالہ باغ پر جو اشعار آب دار لکھے تھے، افسوس بانگِ درا میں جگہ نہ پاسکے:
ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے
پنجابی یونین اس باب میں ہر سال یہ مطالبہ دہراتی ہے کہ برطانیہ سرکاری سرپرستی میں کیے گئے اس ظلم پر معافی مانگے۔ پنجابی یونین کے زیراہتمام سانحہ جلیانوالہ باغ کے شہدا کی یاد میں پنجاب ہائوس میں ایک سادہ مگر پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جو پنجاب کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس نے مزاحمت کے جواں جذبوں کو زندہ کیا اور انگریزوں کے لیے پنجابی حریت پسندوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ سانحہ جلیانوالہ باغ پنجاب کی تاریخ میں امر ہو چکا جس کی یاد لاہور میں پنجابی یونین کے زیرِاہتمام اگلے روز منائی گئی جس میں پنجابی میڈیا گروپ کے صدراور سینئر صحافی ندیم رضا کی اس سانحہ پر تیار کردہ دستاویزی فلم سانحہ جلیانوالہ باغ دکھائی گئی جس نے نہ صرف اس سانحہ کی تلخ اور دردناک یادیں تازہ کر دیں بلکہ اس باب میں تقریب کے حاضرین کی معلومات میں بھی اضافہ ہوا ۔حاضرین نے ندیم رضا کی اس کاوش کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ وہ مستقبل میں بھی ایسی دستاویزی فلمیں بنا کر پنجاب کی تاریخ کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا سرگرم کردار ادا کرتے رہیں گے۔ تقریب کے آغاز میں پنجابی یونین کے چیئرمین اور تقریب کے میزبان مدثر اقبال بٹ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور تقریب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے پنجاب ہاوس کے مختلف منصوبوں کے حوالے سے مہمانوں کو آگاہی بھی فراہم کی۔ مدثر اقبال بٹ نے کہا ،مہمان نوازی پنجاب کی ثقافت ہے اورہم مہمان کی خدمت کرنے کواپنی خوش قسمتی تصور کرتے ہیں۔ پنجاب ہاوس کا مقصدہی پنجابی زبان و ادب اور تاریخ کی مختلف جہتوں میں کام کرنا ہے جس سے پنجابی کی کاز کو تقویت ملے ۔ پنجاب ہاوس میں قائم بابا گورونانک دیو جی آڈیٹوریم میں پنجاب کے مختلف دنوں کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔میری کوشش ہے کہ اس سلسلے میں ہر روز ہی کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہو جس کے لیے تمام انتظام ادارے کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔پنجاب ہائوس میں بابا فرید لائبریری بنائی گئی ہے جس میں 22ہزار کتب موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا، ای لائبریری بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں آن لائن دستیاب ہوں گی۔پروڈکشن ہاوس بھی بن چکا ہے جس میں پنجابی کے اکابرین اور ہیروز پر دستاویزی فلمیں بنائی جائیں گی جیسا کہ آج نمائش کے لیے پیش کی جانے والی دستاویزی فلم بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے ۔تقریب کی صدارت ہرجندر سنگھ دلگیر نے کی۔ مہمانان خصوصی میں پنجابی زبان و ادب کے لیے سرگرم الیاس گھمن ،سابق رکن قومی اسمبلی رائے عزیز اللہ ،سابق پرنسپل اسلامیہ کالج پروفیسر امجد علی شاکر اور افتخار وڑائچ کالروی شامل تھے ۔تقریب کی میزبانی پنجابی یونین کے وائس چیئرمین بلال مدثر بٹ نے کی ۔افتخار وڑائچ کالروی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، پنجاب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ بیرونی حملہ آوروں سے مزاحمت کا احاطہ کرتی ہے۔ 13اپریل کو جلیانوالہ باغ میں کوئی سیاسی جلسہ نہیں ہو رہا تھا بلکہ وہاں پر پنجاب کے مختلف علاقوں سے لوگ بیساکی کا میلہ منانے کے لئے جمع ہوئے تھے، یہ وہ تہوار ہے جو آدم کے گندم کھانے کے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ سیاسی حوالے سے دیکھا جائیتو کچھ لوگ ضرور ڈاکٹر ستیا پال اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لئے جمع ہوئے تھے ۔ سانحہ جلیانوالہ باغ پر ندیم رضا کی دستاویزی فلم کا کوئی جواب نہیں جس سے ہمارے نوجوانوں کوہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوںکی معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔ پنجاب کی دھرتی کو اب پھر مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دھرتی کے کچھ دشمن اس کی تقسیم کی باتیں کررہے ہیں،پنجاب کے بیٹے انہیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
زاہد حسن نے کہا ،
انصاف کا لبادہ اوڑے ہوئے برطانیہ نے آج تک سانحہ جلیانوالہ باغ پر معافی نہیں مانگی ہمیں ان واقعات کی یاد تازہ کرتے رہنا چاہئے اور ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا ،
پنجابی میڈیا گروپ کے زیرِاہتمام بنائی گئی دستاویزی فلم میں سانحہ جلیانوالہ باغ کے سبھی تاریخی پہلو ئوںکا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک شاندار دستاویزی فلم ہے۔
پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا،
آج یہاں موجود سب لوگ پنجابی زبان و ادب کے لئے جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اس کاسہرا مدثراقبال بٹ کے سر ہے کہ انہوں نے ہماری رہنمائی کی اور ہمارا حوصلہ بڑھایا جب کہ اس کے ساتھ ہی ہر طرح کی معاونت بھی فرہم کی ۔
عتیق انور راجہ نے کہا ،
پنجابی سے واقفیت پالنے میں ہی ہوگئی تھی جب ماں لوریاں سنایا کرتی لیکن اس کے لئے کام کرنے کا شوق اور حوصلہ مدثر اقبال بٹ سے ملا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجابی تاریخ کا اہم کردار ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے نصاب میں ان کا ذکر تک نہیں ، پنجابیوں کی تاریخ بہادری اورجرات سے عبارت ہے ۔
انہوں نے مزید کہا،
پنجاب ہاوس پنجابی زبان و ادب کے فروغ اور تاریخ کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے بے مثل کام کر رہا ہے۔دعا ہے کہ یہ ادارہ مزید ترقی کرے ۔
پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان نے کہا ،
میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں کہ میں پنجاب ہاوس کا حصہ ہوں۔
انہوں نے تلخ تاریخی حقائق پر روشی ڈالنے ہوئے کہا،
138گدی نشینوں کا وہ خط آج بھی تاریخ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے ذمہ دار کرنل ڈائر کی شان میں زمین و آسمان ایک کیا ہے، یہ خط آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
معروف شاعر بابا نجمی نے کہا ،
پنجاب کی تاریخ کو عام آدمی تک پہنچانے میں پنجاب ہاوس اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری نوجوان نسل اپنے ہیروز سے ہی آشنا نہیں اور حکومت کے کرنے کا یہ کام پنجاب ہاوس کر رہا ہے ۔
بابا نجمی نے اس موقع پرسانحہ جلیانوالہ باغ پر لکھی گئی اپنی نظم سنا کر حاضرین محفل سے خوب داد وصول کی ۔
پروفیسرامجد علی شاکر نے کہا ،
بیج کے اندر پورا درخت ہوتا ہے ، جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا بیج ہے ۔تاریخ کو مسخ کرنے کا رجحان ہمارے یہاں ہی نہیں ہے بلکہ برطانیہ میں بھی یہ رجحان موجود ہے۔ جنگِ عظیم اول کی برطانوی افواج میں پنجاب کے 13لاکھ فوجیوں کے علاوہ سب کا ذکر ہے جب کہ پنجاب کے ایک لاکھ فوجی اس جنگ میں مارے گئے اور تین لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔تحریکِ آزادی کی جدوجہد میں پنجابی سب سے آگے تھے، یہی وجہ ہے کہ انگریز جاتے جاتے پنجاب کو تقسیم کر کے پنجابیوں کو زخم دے گئے۔
سابق رکن قومی اسمبلی رائے عزیزاللہ نے کہا ،
میرے لئے یہ باعثِ فخر نہیں کہ میں ایک سیاست دان ہوں بلکہ پنجابی ہونا میرے لیے زیادہ فخر کی بات ہے۔ میراتعلق اس گھرانے سے ہے جس نے گرو گوبند سنگھ کو پناہ دی تھی اور سکھوں کے ساتھ یہ تعلق قائم رہے گا ۔افسوس کی بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل ہمارے ہیروز سے واقف نہیں ہے ، ہم سب کو مل کر اس حوالے سے کام کرنا چاہئے ۔پنجاب ہاوس جو کام کر رہا ہے وہ قابل تعریف ہے اور اتنی اچھی اور معلوماتی دستاویزی فلم بنانے پر پنجابی میڈیا گروپ اور ادارے کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے سرگرم الیاس گھمن نے کہا ،
میں آج اس عورت کو سلام پیش کرتا ہوں جس کی کہی ہوئی بات پورے ہندستان کی زبان بن گئی :بس کر دے جرمن، پت مک گئے نے ماواں دے ۔ہندوستانیوں کا انگریزوں سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ سانحہ جلیانوالہ باغ کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں اور معافی مانگی جائے لیکن آج تک اس کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ اس حوالے سے جوکمیٹی تشکیل دی گئی، اس نے بھی اپنی سفارشات میں فقط یہی لکھاکہ فوج کو گولی چلانے سے قبل حالات کا جائزہ لے لینا چاہئے تھا ۔اور معافی توآج تک نہیں مانگی۔اس قربانی کے اصل ہدف کے حصول کا وقت آگیا ہے۔ ہمارا حکومتِ وقت سے مطالبہ ہے کہ پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور پنجاب کا اصل چہرہ سامنے لایا جائے جو پاکستان کو مضبوط بنائے گا۔
ہرجندر سنگھ دلگیر نے کہا،
سانحہ جلیانوالہ باغ 13اپریل 1919کو ہوا اور 15اپریل کو گوجرانولہ میں بھی عوام پر بم برسائے گئے جس میں 12بے گناہ شہری مارے گئے ۔دوسری بات یہ کہ کرنل ڈائر انگریزوں سے متنفر تھا کیوں کہ اسے ترقی نہیں ملی تھی ، جس کے باعث اس نے انگریزوں کو بدنام کرنے کے لئے جلیانوالہ باغ میں گولی چلوائی ۔
انہوں نے مزید کہا،
انگریز نے انصاف نہیں بلکہ ظلم کیا۔ شہید ادھم سنگھ نے پنجابیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ رائے عزیز اللہ اپنے آپ میں تاریخ ہیں، ان کے خاندان نے گروگوبند سنگھ کی جان بچائی تھی ۔سارے سکھ ان کے احسان مند ہیں ۔سکھوں پر مسلمانوں نے ظلم نہیں کیا بلکہ اس وقت کی ریاستوں نے کیا ، مسلمانوں نے تو سکھوں کو پناہ دی تھی ۔
تقریب میں ایڈیٹر روزنامہ پنجابی زبان میاں آصف علی، حکیم آصف گجرسمیت حاضرین کی کثیر تعداد موجود تھی۔
تقریب کے میزبان اور پنجابی یونین کے چیئرمین مدثر اقبال بٹ کی جانب سے تقریب میں شرکت کرنے والی نمایاں شخصیات کی دستار بندی کی گئی اورگلوں میں پنجابی سروپا ڈالا گیا۔
تقریب کے اختتام پر پرتکلف افطاری سے مہمانوں کی تواضح کی گئی جب کہ میزبان مدثر اقبال بٹ نے حاضرین کا آمد پر شکریہ ادا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوئر ہاف، چار کالم
ملک میں شرح خواندگی کے حقیقی فروغ کے لیے
پرائمری تعلیم کو فروغ دیں

پرائمری سکول کے بچوں کو پڑھانا آسان کام نہیں، اس کے لئے اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائمری تعلیم کو فروغ دے اورپرائمری سکولوں پر خصوصی توجہ دی جائے جب کہ تربیت یافتہ اساتذہ کو بھرتی کیا جائے
محمد حسین آزاد

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہوتا ہے۔ جن قوموں نے تعلیم حاصل کی وہ ترقی کے عروج تک پہنچ چکے ہیں۔ اور پاکستان جیسے تقلید کرنے والے ممالک جن کی تعلیمی نظام کو ایسے دلدل میں پھنسا دیا ہیں جس سے سو سال میں بھی نکلنے کی کوئیی امید نظر نہیں آرہی۔ جب انگریز ہندوستان سے جا رہے تھے تو انہوں نے ہندوستان کو ہمیشہ ہمیشہ پسماندہ رکھنے کے لئے ایک دستور دیا جس میں تعلیمی نظام وغیرہ بھی تھا اور ان کا وضع کردہ نظام بھی جو آج بھی چل رہا ہے۔
قارئین، ہمارے وطن عزیز پاکستان میں تعلیمی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اوسطا شرح خواندگی اٹھاون فیصد بتائی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک کے زیادہ تر علاقوں میں یہ شرح تیس پینتیس فیصد ہوتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جن علاقوں میں لوگ تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں وہاں پر لوگ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں اور جن علاقوں کے لوگ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں وہاں پر نجی سکولوں کا نظام نہیں ہے اوراکثر سرکاری سکولوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے ۔
دراصل پرائمری سکولز تو تقریبا ملک کے کونے کونے میں ہیں جن میں بچے بھی کافی تعداد میں پڑھتے ہیں لیکن ان سکولوں کا معیار زیرو ہے۔ اکثر سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہوتی ہے اور بعض سکولوں میں تو صرف ایک ہی استاد ہوتا ہے جو بہ یک وقت استاد، ہیڈ ٹیچر، چوکیدار اور سویپر بھی ہوتا ہے۔ حکومت کی پالیسی کے مطابق پرائمری سکول میں چالیس طالب علموں کے سر ایک استاد ہوتا ہے جو کہ پرائمری تعلیم کے ساتھ ایک مذاق سے کم نہیں۔ جن سکولوں میں تعداد سو سے کم ہوتی ہے ان میں چھ کلاسز کے لئے ایک یا دو اساتذہ ہوتے ہیں۔ اور جن سکولوں میں تعداد زیادہ ہو اسی کے مطابق وہاں پر اساتذہ کی تعداد بھی ہوتی ہے۔ محکمہ تعلیم نے پرائمری سکولوں کے اساتذہ کے ذمے بہت کام لگائے ہیں۔سکول کا ریکارڈ برابر کرنا، سکولوں میں تعمیری کام کرنا۔ داخلہ مہم چلانا۔ بچوں کی حاضری یقینی بنانا( سزا نہیں دینا)،روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو ہوم ورک دینا، اورچیک کرنا، غیر حاضر بچوں کے والدین سے رابطہ کرنا، بچوں کو اچھی طرح پڑھانا اور اپنا رزلٹ بہتر بنانا وغیرہ وغیرہ۔لیکن یہ سب ہدایات صرف باتوں تک محدود ہیں۔ کیونکہ دو تین اساتذہ کے لئے یہ کوئیی معمولی کام نہیں ۔ محکمے کو بھی یہ پتہ ہے کہ یہ کام ممکن نہیں جو وہ اساتذہ سے لینا چاہتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب فارمیلٹیز ہیں۔
قارئین، ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ وہاں کے لوگ جانتے ہیں جس بلڈنگ کی بنیاد مضبوط ہوگی وہ بلڈنگ بھی مضبوط ہوگی۔ اور جس بلڈنگ کی بنیاد کمزور ہوگی وہ بلڈنگ بہت جلد گر جائے گی۔ وہاں پر پرائمری سکولوں کے بچوں کو پڑھانے کے لئے سپیشل اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں اور ان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ان ممالک میں سو فیصد تعلیم ہے اور وہاں کے لوگ سوشل اور مہذب بھی ہیں۔ اور ایک تو ہمارا پاکستان ہے کہ جہاں پر محکمہ تعلیم میں بھی سب کے سب آفیسرز کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جو کہ اپنے آقاوں کو خوش کرنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنا جانتے۔یہاں پر محکمہ تعلیم کے ملازمین تو کیا عام لوگ بھی ان موسمی آفیسرز سے ڈرتے ہیں تاکہ کل سیاسی بنیاد پر ان کے لئے کوئیی مسئلہ کھڑا نہ کردیں۔ دوسری طرف سکولوں کے اساتذہ کو ایسی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے جو بچوں کو اچھی طرح پڑھا سکیں۔ مجھ جیسے لوگ جو بچوں کو الف، ب تک پڑھانے کا گر نہیں جانتے ، بھی پرائمری سکولوں میں بھرتی کئے گئے ہیں۔ اور پرائمری سکولوں کے پچاس فیصد سے زیادہ اساتذہ اس کوشش میں ہیں کہ کب ان کی کہیں اور نوکری ہوجائے گی اور وہ یہ جاب چھوڑیں گے۔پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہ بھی بہت کم ہوتی ہے۔ تقریبا سب محکموں میں اساتذہ کی تنخواہ کم ہوتی ہے لیکن ان میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جو کام پچاس روپے کا نہیں کرتے اور تنخواہ پچاس ہزار سے زیادہ لیتے ہیں۔
پرائمری سکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پڑھانا آسان کام نہیں، اس کے لئے اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی ٹریننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائمری تعلیم کو فروغ دے۔پرائمری سکولوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔تربیت یافتہ اساتذہ کو بھرتی کیا جائے ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اور سکیلز بڑھا دیے جائیں اور ان سے تنخواہ کے مطابق کام لیا جائے ۔ پرائمری سکولوں پر ہائی سکولز اور کالجز سے زیادہ توجہ دی جائے ۔کیونکہ جب بنیاد مضبوط ہوگی تو پوری بلڈنگ مضبوط ہوگی۔ جب ہماری پرائمری تعلیم مضبوط ہوگی تو شرح خواندگی بھی بڑھ جائے گی اور ملک میں ایکسپرٹس بھی پیدا ہوجائیں گے۔ کیونکہ ملک کی ترقی وخوشحالی کا دارومدار ملک کے ایکسپرٹس اور ایماندار حکمرانوں پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوئر ہاف، چار کالم
پاکستان کا خستہ حال تعلیمی نظام جو
بے روزگار نوجوان ہی پیدا کر رہا ہے

باکس
دنیا میں سب سے بہتر تعلیمی نظام فن لینڈ اور سویڈن کا ہے۔فن لینڈ میں بچہ سات سال کی عمر میں سکول داخل کروایا جاتا ہے اور شروع میں بچوں کو کوئیی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ مختلف عملی سر گرمیوں کے ذریعے سکھایا جاتا ہے جب کہ وطن عزیز کے نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال بہت مختلف اور تکلیف دہ نظر آتی ہے
اخنسا سعید

سیرت انسانی کو جا نچنے کا کوئیی معتبر پیمانہ اگر ہو سکتا ہے تو وہ علم کے سوا کچھ اور نہیں ،علم ہی وہ ابدی روشنی ہے جو انسانی فکر و شعور کو نئے آفاق سے روشناس کروانے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے ۔کسی معاشرے کو ہر گز رتے لمحے کے ساتھ رواں دواں رکھنے کا فریضہ انجام دینا مقصود ہو تو وہ حد درجہ ترتیب شدہ نظام تعلیم ہی ہو سکتا ہے ۔کسی بھی معاشرے یا تہذیب کی زندگی یا موت کا اگر کوئیی فیصلہ کر سکتا ہے تو وہ تعلیمی نظام ہے ۔آج اگر ہم یورپ کے نظام تعلیم کو دیکھیں تو وہ یورپ جو کبھی اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا آج وہاں علم کی شمعیں جل رہی ہیں ،انسانیت کے اصول مرتب ہو رہے ہیں ۔اسی یورپ میں رائٹ برادران نے پہلا جہاز اڑایا ،گراہم بیل نے ٹیلیفون ایجاد کیا ، چارلس با بیج کمپیوٹر کا بانی ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب صرف اور صرف یورپ میں ہی کیوں ہوا۔ایڈیسن ،ڈارون ،اور نیوٹن وہاں کیو ں پیدا ہوئے ؟نظریہ اضافت وہاں سے کیوں آرہا ہے ،نفسیات کا نظریہ فرائیڈنے ہی کیوں دیا کیا یہ سب پاکستانی نہیں کر سکتے تھے ؟
جی ہاں یہ سب پاکستانی بھی کر سکتے ہیں اگر ہمارا تعلیمی نظام منظم اور مستحکم ہو مگر ہمارا تعلیمی نظام خستہ حالی کا شکار ہے ۔پاکستان کو وجود میں آئے 74سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا اس دوران بہت ساری پالیسیاں بنائی گئیں مگر ہمارا تعلیم کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں مو جود ہے ۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک آج تعلیمی میدان میں ہم سے آگے ہیں چین اور جاپان نے ہم سے بعد میں آزادی حاصل کی مگر آج وہ ممالک اپنے بہترین تعلیمی نظام کی بنا پر ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں ۔ہم نے اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر انگریزی کو قابلیت اور بہترین تعلیمی معیار کا ذریعہ بنا لیا جس کی وجہ سے آج تک ہم ترقی نہ کر سکے نہ تعلیمی میدان اور نہ ہی کسی اور میدان میں ،چین کی مثال ہمارے سامنے ہے چین نے انگریزی کو چھوڑ کر اپنی قومی زبان کو ترقی دی چین میں بچوں کو پڑھایا جانے والا سارا نصاب چینی زبان میں ہے آج چین ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے ۔بنگلہ دیش کی شرح خواندگی ہم سے زیادہ ہے ۔پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کیا جائے تو پاکستان کا نمبر ہے جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اور بنگلہ دیش نمبر پر ہے ۔اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی سے فیصد پر پہنچ چکی ہے ۔اور وجہ ہمارا مشکل ترین نظام تعلیم ہے۔
دنیا میں سب سے بہتر تعلیمی نظام فن لینڈ اور سویڈن کا ہے۔فن لینڈ میں بچہ سات سال کی عمر میں سکول داخل کروایا جاتا ہے اور شروع میں بچے کو کوئیی کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ مختلف عملی سر گرمیوں کے ذریعے سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی بچوں سے کوئیی امتحان لیا جاتا ہے اس کے بر عکس وطن عزیز کے نظام تعلیم کو دیکھا جائے تو صورت حال بہت مختلف اور تکلیف دہ نظر آتی ہے ۔ہمارے ہاں تین سال کا بچہ سکول میں داخل کروایا جاتا ہے اور ساتھ بچے کو بھاری بھر کم کتابوں کا بوجھ تھما دیا جاتا ہے ۔سکولوں میں مار پیٹ سختی کا کلچر بچوں کو ڈھیٹ اور پڑھائی سے دور کر دیتا ہے بچوں پر امتحانات اور مختلف ٹیسٹوں کو بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔ہمارے تعلیمی نظام کے نا کارہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب بہت پرانا ہے اسی نصاب کا سال ہا سال پڑھایا جا تا ہے ۔ہماری ہائر ایجوکیشن اور تحقیقی کام بھی ذرہ بھر قابل تعریف اور عالمی معیار کے ہم پلہ نہیں ہے۔ اصل تحقیق کی بجائے ساری توجہ جیسے تیسے کر کے ریسرچ ورک مکمل کرکے ڈگری حاصل کرنے میں ہوتی ہے۔ پرائمری کے بجائے سیکنڈری ڈیٹا پرزیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم چربہ سازی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خالص اپنی محنت کے بجائے دوسروں کے کیے ہوئے کام اور تحقیق کو الفاظ کا ہیر پھیر کر کے اور چربہ جانچنے کے سافٹ ویئرز سے کھیل کر اپنا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے تحقیقی کام کا مقصد فقط کسی بھی طرح ممتحن کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہم ترقی کے عمل میں بہت پیچھے ہیں۔ نئی تخلیقات اور ایجادات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈگری کے اجرا کے لئے قابلیت، تجربے اور تحقیقی و علمی کام کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پرائمری ڈیٹا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اس کے بر عکس ہمارے ملک میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بھی مختلف امتحانات دینے پڑتے ہیں ۔
ہمارا امتحانی نظام نقل کی گندگی سے آلودہ ہے یہاں امتحان سے پہلے ہی پرچہ آئوٹ ہوجاتا ہے ۔ایک ایک سوال کے حل ہونے کی بولی لگتی ہے ،پاس ہونے کے لیے ہزاروں روپے رشوت دی جاتی ہے۔ہمارے ہاں امتحان بندوقوں کے سائے تلے ہوتے ہیں ۔ایسا تعلیمی نظام صرف بیروزگاروں کی ایک بھیڑ پیدا کر سکتا ہے ۔جس ملک کا وزیر تعلیم خود ان پڑھ جاہل ہو وہاں تعلیم کے ذریعے صرف اور صرف جاہلوں کا جتھا ہی تیار کیا جا سکتا ہے ،جو چور ڈاکو ،لٹیرے تو بن سکتے ہیں لیکن سائنسدان نہیں بن سکتے ۔ہمارا تعلیمی نظام دفتروں کے کلرک ،ٹھیلے والے ،لوہار ، بڑھئی ،اور بے روز گار انجینئر پیدا کر رہا ہے ۔ایسے تعلیمی نظام میں حکیم اور عطائی ڈاکٹر بن کر لوگوں کو بیمار تو کر سکتے ہیں ان کا علاج نہیں کر سکتے ۔ہمارے اس خستہ حال تعلیمی نظام کا جنازہ کرونا وائرس کی وبا نے نکال دیا ہے ۔نظام تعلیم کونئی تحقیقات ،اور نئی اصطلاحات سے روشناس کروائے بغیر روشن مستقبل کا خواب دیکھنا محال ہے ۔اس وقت ہماری حکومتوں کو سب سے زیادہ توجہ نظام تعلیم کی بہتری کی طرف دینی ہو گئی کیوں کہ تعلیم ہی کسی بھی ملک کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے ۔
……………………
تعلیم پورا صفحہ، یہ مضمون اپر ہاف
نجی تعلیمی اداروں کی مقبولیت
کیا سرکاری تعلیمی نظام انحطاط پذیر ہے؟
طریقہ تدریس کا فرق ہے یا وجہ کوئیی اور ہے، خصوصی رپورٹ

باکس نمبر ایک
کسی بھی سکول میں پڑھانے والے اساتذہ ہی اس ادارے کی کامیابی کی پہلی ضمانت ہوتے ہیں۔ کتاب سے دیکھ کر پڑھانے یا ترجمہ کر دینے والا ہر شخص استاد نہیں ہو سکتا۔ ایک ڈگری ہولڈر اور تجربہ کار استاد جس کی اپنے مضمون پر گرفت ہو، اس کی برابری ایک ایف اے، یا ،بی اے پاس استاد کسی صورت بھی نہیں کر سکتا

باکس نمبر دو
سرکاری سکولوں میں اب بھی اچھی تعلیم دی جاتی ہے لیکن جس طرح آپ نجی سکولوں میں اپنے بچے کی ماہانہ رپورٹ لینے جاتے ہیں، اسی طرح سرکاری سکولوں میں بھی ہر مہینے یہ چیک کرنے جائیں کہ آپ کا بچہ کیسا پڑھ رہا ہیتو یقین جانیے کہ آپ اپنے اتنے سے عمل سے اپنے بچے میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گے

بلال حسن بھٹی
ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آبادی اور موجودہ گورنمنٹ سکولز میں دی جانے والی تعلیمی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بہت سے نئے پرائیویٹ ادارے کھل رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ان پرائیویٹ سکولز کا ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن عموما اب دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ غریب سے غریب شخص بھی اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں پڑھانا چاہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو گورنمنٹ سکولوں میں سہولیات کی کمی ہے۔ تو دوسری طرف پرائیویٹ اداروں کی جانب سے کی جانی والی مارکیٹنگ ہے۔ جو وہ پمفلٹوں، وال چاکنگ اور باقی ذرائع سے کرتے ہیں۔ جس سے عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں پڑھنے والے طالب علم نالائق ہوتے ہیں اور تمام پوزیشنز تو پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کو مل جاتی ہیں۔ایجوکیشن کے ایک ادنی طالب علم ہونے کے ناتے اور تقریبا چار سال تک پرائیویٹ سکولز میں پڑھانے کی وجہ سے میں اس بات کو ایک مغالطہ سمجھتا ہوں کہ پرائیویٹ اداروں میں نہ پڑھنے والے بچے نالائق ہوتے ہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی وہ پرائیویٹ پرائمری یا مڈل سکولز جو خاص طور پر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کیلیے ہیں۔ گورنمنٹ سکولز کی نسبت اتنا ہی بہترین نظام تعلیم مہیا کر رہے ہیں جتنا کہ انکے اشتہارات یا بچے کو داخل کرواتے وقت ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ یہاں ہم پرائیویٹ اور گورنمنٹ سکولز کے اساتذہ، وہاں پڑھائے جانے والے نصاب اور اسکے مقاصد، پڑھانے کا طریقہ کار،ا ور انکے جائزہ/ امتحان لینے کے طریقے کار کو دیکھیں گے۔
اساتذہ:
کسی بھی سکول میں پڑھانے والے اساتذہ ہی اس ادارے کی کامیابی کی پہلی ضمانت ہوتے ہیں۔ کتاب سے دیکھ کر پڑھانے یا ترجمہ کر دینے والا ہر شخص استاد نہیں ہو سکتا۔ ایک ڈگری ہولڈر اور تجربہ کار استاد جس کی اپنے مضمون پر گرفت ہو اسکی برابری ایک ایف ۔اے، یا ،بی۔ اے پاس استاد کسی صورت بھی نہیں کر سکتا۔ جب ہم اکثر پرائیویٹ اداروں کے اشتہارات کی طرف دیکھیں تو ہمیں کوالفائیڈ اساتذہ کا لفظ ہر اشتہار میں لکھا نظر آئیگا۔ لیکن اگر ہم دیکھیں تو ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی زیادہ تر تعداد میٹرک، ایف۔ اے یا بی۔ اے پاس ہوتی ہے۔ تقریبا دس فیصد ہی ایسے استاد ہوتے ہیں جنکے پاس ماسٹر کی ڈگری ہوتی ہے۔
دوسری جانب گورنمنٹ سکولز میں پڑھانے والے استاد کی کم از کم تعلیم بی ۔اے ہوتی ہے۔ جبکہ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد ایسے اساتذہ ہوں گے جن کی تعلیم ماسٹرز سے کم ہو۔ اب اگر آپ کوالفائیڈ استاتذہ سے متاثر ہوں تو ایک دفع اپنے بچے کو پڑھانے والے اساتذہ کی تعلیم ضرور چیک کر لیجئے گا۔
مقاصد:
کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے مقاصد کا تعین بہت ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر کسی استاد کو یہ ہی نہیں پتا کہ اس نے جو نصاب پڑھانا ہے۔ اس نصاب کے مقاصد کیا ہیں۔ تو وہ کس طرح بچوں کو بہتر طریقے سے پڑھا پائے گا۔ گورنمنٹ اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ جن کے پاس ایجوکیشن کی ڈگری ہوتی ہے۔ وہ کم از کم اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں، کہ وہ جو پڑھانے جا رہے ہیں۔ اسکے عمومی یا خصوصی مقاصد کیا ہیں۔ انکو کس طرح ترتیب دیا جاتا ہے۔ یا ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کونسے طریقے استعمال کیے جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف ایک ایف۔ اے ،یا، بی۔ اے پاس استاد اس قسم کی تمام باتوں سے نا واقف ہوتا ہے۔ وہ تو وہی کچھ کرے گا جیسا اسکو ہیڈ کی طرف سے انسٹرکشن دی جاے گی۔ ہم یہی جانتے ہیں کہ پرائیویٹ سکولوں میں انگلش میڈیم نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس نصاب کو دیکھیں تو اسے پڑھ کر ایک بچہ زیادہ سے زیادہ پرائمری تک دنوں، مہینوں، ہفتوں، کے نام، چند سبزیوں اور رنگوں کے نام اور گرائمر سے چند مخصوص کہانیاں اور درخواستیں یاد کروا دی جاتی ہیں۔ جبکہ سادہ لوح والدین سمجھ لیتے ہیں کہ انکا بیٹا انگریز بن گیا۔ جب تک اس بات کا تعین ہی نہیں کیا جائے گا کہ پانچ سالہ تعلیم کے بعد ایک بچہ کس حد تک انگریزی میں ماہر ہو جائیگا۔ تو پھر یہ انگلش میڈیم وغیرہ سب دعوے ہی رہ جائیں گے۔ اس دفعہ جب آپ پیرنٹس میٹنگ میں جائیں تو بچوں کے اساتذہ سے انکو پڑھائے جانے والے نصاب کے مقاصد ضرور پوچھیں۔ یا پھر اس طرح کے کسی پرائیویٹ سکولز میں داخل کروانے جائیں تو پھر یہ ضرور پوچھ لیجئے گا کہ آپکا بیٹا کس حد تک انگلش سیکھ جائیگا۔
طریقہ تدریس:
کسی بھی نظام تعلیم میں مقاصد اور اساتذہ کے بعد طریقہ تدریس خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ایک استاد کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ وہ سبق کو کس طریقے سے بچے کو سمجھا سکتا ہے۔ اگر ایک مخصوص طریقہ ناکام ہو رہا ہے تو وہ اور کونسا طریقہ استعمال کرے گا۔ اگر ہم گورنمٹ سکولز کا جائزہ لیں تو وہاں کے استاد تجربہ کار اور زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔ جو کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر ایک طریقے سے بچے کو کوئیی سبق سمجھ نہیں آ رہا۔ تو دوسرا کونسا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ اساتذہ اپنی تعلیم اور تجر بے کی کمی کی وجہ سے ان طریقوں سے بالکل واقفیت نہیں رکھتے۔ اگر دیکھا جائے تو ان پرائیویٹ سکولوں میں انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم کی زیادہ مشہوری کی جاتی ہے۔ ایسے بہت سے سکولز جو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کے دعوے کرتے ہیں۔ اول تو انکے پاس بچوں کی تعداد کے مطابق کمپیوٹرز ہی نہیں ہوتے۔ دوسرا کوئیی ایسا استاد بھی نہیں ہوتا جو کمپیوٹر کوعملی طورپڑھانے کا ماہر مانا جاتا ہو۔ ایسے میں اگر کمپیوٹر کی کتاب کو نصاب میں شامل کر لینے سے بچہ کمپیوٹر کا ماہر نہیں ہو جاتا۔
دوسرا یہ کہ اگر ہم بس انگلش پڑھانے کا طریقہ کو دیکھیں۔ تو اکثر پرائیویٹ سکولوں میں ابھی بھی انگلش کو پڑھانیکے لیے گرائمر اینڈ ٹرانسلیشن میتھڈ یعنی کہ انگلش کا ترجمہ کر کے پڑھانے کا طریقہ ہی استعمال جاتا ہے۔ جو کہ ایک صدی پہلے تک یورپ میں متروک ہو چکا ہے۔ کچھ سکولز میں ڈائریکٹ میتھڈ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کہ انگلش پڑھ کر کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے کی بجائے اسی زبان میں الفاظ کے مطالب بچے کو سمجھائیجائیں۔ لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان سکولز میں پڑھانے والے بہت سے اساتذہ بلکہ ان اداروں کہ پرنسپلز بھی اس طریقے کو استعمال کرنا تو دور اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ تو پھر کس طرح یہ سکولز ایک گونمنٹ ادارے سے خود کو بہتر مانتے اور ہمارے سامنے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔
جائزہ/ Evaluation :
کسی بھی پروگرام کا جائزہ ہی ہمیں بتاتا ہے کہ جو کام آپ نے اب تک کیا ہے۔ وہ کتنا نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔ یا کس حد تک آپکے متعین کردہ مقاصد پورے ہوئے ہیں۔ تعلیمی نظام میں جائزہ لینے کے لییامتحانات لیے جاتے ہیں۔ جس میں ششماہی اور سالانہ امتحانات زیادہ قابل غور ہیں۔ کیونکہ اس سے ہی پتا چلتا ہے کہ اب تک پڑھائے جانے والے نصاب سے بچوں نے کتنا سیکھا ہے۔ میرے نزدیک یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پرائیویٹ سکولز میں سب سے زیادہ بد دیانتی کی جاتی ہے۔ والدین جب دیکھتے ہیں کہ انکے بچوں نے نوے فیصد تک نمبر لیے ہیں۔ تو ان کی خوشی کی کوئیی انتہا نہیں رہتی۔ لیکن میرے نزدیک یہ خوشی ویسی ہے جیسے آپکو مشہور برانڈ کے ریپر یا ٹیگ کے ساتھ لنڈے کی کوئی چیز دے دی جائے۔ جب ہم اس کا گورنمنٹ سکولز کے طلبہ سے موازنہ کریں تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ پرائیویٹ سکولز کہ طلبہ افلاطون ہیں جبکہ گورنمنٹ سکولز میں پڑھنے والے طلبہ انکے مقابلے میں بالکل جاہل ہیں۔ جبکہ حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔ پرائیویٹ سکولز میں عام طور پر جلد ہی سلیبس ختم کرنے کے بعد دسمبر ٹیسٹ کی تیاری شروع کروا دی جاتی ہے۔ جس کے لیے بچوں کو دس یا پندرہ مخصوص سوالوں پر نشان لگا کر دے دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ پیپرز بنانے والے اور لینے والے وہی استاد ہوتا ہے۔ بچوں کوپیپرز ہونے تک وہ سوال اچھی طرح رٹا دیے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف گورنمنٹ سکولوں میں اساتذہ تک کو نہیں پتاہوتا کہ پیپر میں کونسا سوال آئے گا۔ اس لیے انکو دسمبر ٹیسٹ میں اپنا سلیبس مکمل یاد کرانا ہوتا ہے۔ اور یہی حال سالانہ پیپرز میں ہوتا ہے کہ گورنمنٹ سکولز میں پوری کتابوں میں ٹیسٹ آتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں جو سوالات دسمبر ٹیسٹ میں سے آتے ہیں۔ سالانہ ٹیسٹوں میں اس سے اگلے دس یا پندرہ مخصوص سوالات یاد کرا دیے جاتے ہیں۔ اب جب پیپرز دینے کے بعد رزلٹ آتا ہے۔ تو گورنمنٹ سکولز کے طلبہ ساری کتاب یاد کر کے مشکل سے پچاس سے ساٹھ فیصد نمبر حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ اداروں کہ طلبہ دس پندرہ مخصوص سواات یاد کرو کر کے اسی سے نانوے اور بعض اوقات سو فیصد نمبر لے لیتے ہیں۔ جس سے نہ صرف والدین بلکہ رشتہ دار بھی بچے کی ذہانت سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو دس پندرہ سوالات یاد کرنے والے بچہ اسی سے نوے فیصد نمبر لے کر ہرگز پوری کتاب میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد نمبر لینے والے بچیسے زیادہ ذہین نہیں ہو سکتا۔ آپکو پرائیویٹ سکولز کے اس طریقہ واردات کو ضرور سمجھنا چاہیے جو کہ میرے نزدیک تقریبا اسی سے نوے فیصد سکولوں میں رائج ہے۔ میری بات کی تصدیق کے لیے آپ اپنے بچوں کے سکولز میں ہونے والے امتحانات کے طریقے کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہوں گا کہ میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ تمام پرائیویٹ سکولز میں دی جانے والی تعلیم گورنمنٹ سکولز میں دی جانے والی تعلیم سے ناقص ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ پرائیویٹ سکولز میں تعلیم کے متعلق جتنے دعوے کیے جاتے ہیں اس میں بہت سے غلط ہوتے ہیں۔ آپ اشتہارات اور لوگوں کی باتوں میں آ کر اپنے بچوں کو داخل کرانے سے پہلے ایک دفعہ وہاں پڑھنے والے کسی بچے سے یہ ضرورپوچھ لیجئے گا کہ وہاں پڑھانے والے اساتذہ کی قابلیت کیا ہے اور ان کا امتحانات لینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ گورنمنٹ سکولز میں اب بھی اچھی تعلیم دی جاتی ہے لیکن جس طرح آپ پرائیویٹ سکولز میں اپنے بچے کی منتھلی رپورٹ لینے جاتے ہیں۔ اسی طرح گورنمنٹ سکولز میں بھی ہر مہینے یہ چیک کرنے جائیں کہ آپکا بچہ کیسا پڑھ رہا ہے۔ یقین کریں آپکے اتنے سے عمل سے بھی آپ محسوس کریں گے کہ اس سے آپکے بچے میں مثبت تبدیلی آئی ہے.
چکے ہیں لیکن مہذب برطانیہ کے لیے یہ حقیقت قب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں