161

پنجابی یونین کے زیر اہتمام پنجاب ہائوس میں”سانحہ جلیانوالہ باغ”کے شہدا کی یاد میں تقریب

پنجابی یونین کے زیر اہتمام گزشتہ روز پنجاب ہاؤس میں سانحہ جلیاں والاباغ کے عنوان سے تقریب منعقد کی گئی یہ تقریب 13اپریل 1919ء کو پنجاب کے جلیانوالا باغ میں انگریز کرنل مائیکل ایڈوائر کے حکم پر باغ کا دروازہ بند کر کے نہتے پنجابیوں پر فائرنگ کر کے شہید کرنے کی یاد میں منعقد کی گئی تھی جس میں پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا کی اس واقع پر تیار کردہ ڈاکیو منٹری ”سانحہ جلیاں والا باغ” دکھائی گئی جس نے نہ صرف اس وقت کی یاد تازہ کر دی بلکہ دیکھنے والوں کی اس سانحہ سے منسلک تاریخی معلومات میں بھی اضافہ کیا ۔ڈاکیومنٹری کو بہت سراہا گیا۔ تقریب کے آغاز میں پنجابی یونین کے چیئرمین مدثر اقبال بٹ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے تقریب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور پنجاب ہاؤس کے مختلف منصوبوں کے حوالے سے مہمانوں کو آگاہی دی۔ انہوں نے کہا کہ مہمان نوازی پنجاب کی ثقافت ہے اور مہمان کی خدمت کرنے کو ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ پنجاب ہاؤس کا مقصد پنجابی کی مختلف جہتوں میں کام کرنا ہے جس سے پنجابی کی کاز کو تقویت ملے ۔ پنجاب ہاوس میں قائم بابا گورونانک دیو جی آڈیٹوریم میں پنجاب کے مختلف دنوں کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔میری کوشش ہے کہ اس سلسلے میں ہر روز کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہو جس کی تمام سہولیات اور تواضع ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں ۔پنجاب ہائوس میں بابا فرید لائبریری بنائی گئی ہے جس میں 22ہزار کتب موجود ہیں ای لائبریری تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اس میں ایک لاکھ سے زائد کتب آن لائن ہونگی۔پروڈکشن ہاؤس بھی بن چکا ہے جس میں پنجابی کے اکابرین اور ہیروز پر ڈاکیومنٹریز بنائی جائیں گی آج دیکھائی جانے والی سانحہ جلیاں والا باغ کی ڈاکیومینٹری اسی کا حصہ ہے ۔تقریب کی صدارت ہرجندر سنگھ دلگیر نے کی۔ مہمانان خصوصی میں پنجابی کے رہنما الیاس گھمن ،سابق ایم این اے رائے عزیز اللہ ،سابق پرنسپل اسلامیہ کالج پروفیسر امجد علی شاکر اور افتخار وڑائچ کالروی شامل تھے ۔تقریب کی میزبانی پنجابی یونین کے وائس چیئرمین بلال مدثر بٹ نے کی ۔افتخار وڑائچ کالروی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ بیرونی حملہ آوروں سے مقابلے کی تاریخ ہے 13اپریل کو جلیاں والا باغ میں کوئی سیاسی جلسہ نہیں تھا بلکہ وہاں پر پنجاب کے مختلف علاقوں سے لوگ بیساکی کا میلہ منانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے یہ وہ تہوار ہے جو آدم کے گندم کھانے کے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا سیاسی طور پر تو چند لوگ ڈاکٹر ستیا پال اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی گرفتاری پر احتجاج کے لئے اکٹھے ہوئے تھے جلیاں والا باغ کے واقع پر ندیم رضا کی ڈاکیومنٹری کمال کی ہے جس سے ہمارے نوجوانوں کوہی نہیں آنے والی نسلوں کو بھی تاریخی معلومات ملیں گی۔ پنجاب کی دھرتی کو اب پھر خون کی ضرورت ہے پنجاب کے کچھ دشمن اس کی تقسیم کی باتیں کرنے لگے ہیں پنجاب کے بیٹے انہیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔زاہد حسن نے کہا کہ انصاف کا لبادہ اوڑے ہوئے انگریز قوم نے آج تک سانحہ جلیاں والا باغ پر معافی نہیں مانگی ہمیں ان واقعات کی یاد تازہ کرتے رہنا چاہیے اور اس سے سبق سیکھنا چاہیے انہوں نے کہا کہ پنجابی میڈیا گروپ کی ڈاکیومنٹری میں جلیاں والا باغ کے سانحہ کے سبھی تاریخی پہلو ئوں پر بات ہوگئی ہے یہ کمال کی ڈاکیومنٹری ہے۔پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا کہ آج ہم سب پنجابی کے لئے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کاسہرا مدثراقبال بٹ کے سر ہے کہ انہوں نے ہمیں راہنمائی اور حوصلہ کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی معاونت بھی فرہم کی ۔عتیق انور راجہ نے کہا کہ پنجابی سے واقفیت ماں کی لوریاں سننے سے ہے لیکن اس کے لئے کام کرنے کا شوق اور حوصلہ مدثر اقبال بٹ سے ملا ہے رنجیت سنگھ پنجابی تاریخ کا اہم کردار ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سلیبس میں اس کاذکر تک نہیں ہے پنجابیوں کی تاریخ بہادری اور دلیری کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ہاؤس پنجابی کے لئے بہت کام کر رہا ہے اللہ اس ادارے کو قائم و دائم رکھے ۔پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان نے کہا کہ میرے لئے انتہائی فخر کی بات ہے کہ میں پنجاب ہاؤس کا حصہ ہوں انہوں نے کہا کہ 138گدی نشینوں کا وہ خط آج بھی تاریخ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے جلیاں والا باغ کے سانحہ کے ذمہ دار کرنل ڈائر کو رب لکھا ہے یہ خط آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔بابا نجمی نے کہا کہ پنجاب کی تاریخ کو عام آدمی تک پہنچانے میں پنجاب ہاؤس اہم کردار ادا کر رہا ہے ہماری نوجوان نسل اپنے ہیروز سے ہی آشنا نہیں یہ کام پنجاب ہاؤس کر رہا ہے ۔اس موقع پر بابا نجمی نے جلیاں والا باغ کے سانحہ کے حوالے سے اپنی نظم سنا کر خوب داد پائی ۔پروفیسرامجد علی شاکر نے کہا کہ بیج کے اندر پورا درخت ہوتا ہے جلیاں والا باغ کا سانحہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا بیج ہے ۔تاریخ کو مسخ کرنے کا رجحان ہمارے یہاں ہی نہیں ہے برطانیہ میں بھی یہ رجحان موجود ہے جنگ عظیم اول کے فوجیوں میں پنجاب کے 13لاکھ فوجیوں کے علاوہ سب کا ذکر ہے جبکہ پنجاب کے ایک لاکھ فوجی جنگ میں مارے گئے اور تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے تھے پنجابی ہر شعبے میں نمبر ون ہیں آزادی کی تحریک میں بھی پنجاب کی قیادت نمبر ون تھی یہی وجہ ہے کہ انگریز جاتے جاتے پنجاب کو تقسیم کر کے پنجابیوں کو زخم دے گئے ۔سابق ایم این اے رائے عزیزاللہ نے کہا کہ کے میرے لئے سیاست سے تعلق ہونا فخر نہیں ہے بلکہ پنجابی ہونا زیادہ فخر کی بات ہے میراتعلق اس گھرانے سے ہے جس نے گرو گوبند سنگھ کو پناہ دی تھی اور سکھوں کے ساتھ یہ تعلق قائم رہے گا ۔افسوس کی بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل ہمارے ہیروز سے واقف نہیں ہے ہمیں سب کو مل کر اس پر کام کرنا ہے ۔پنجاب ہاؤس جو کام کر رہا ہے وہ بہت قابل تعریف ہے اور اتنی اچھی ڈاکیومنٹری بنانے پر پنجابی میڈیا گروپ اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔پنجابی رہنما الیاس گھمن نے کہا کہ میں آج اس عورت کو سلام پیش کرتا ہوں جس کی کہی ہوئی بات پورے ہندستان کی زبان بن گئی بس کر دے جرمن ،پت مک گئے نے ماواں دے ۔ہندوستانیوں کا انگریزوں سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ جلیاں والے باغ کے سانحہ کی تحقیقات کی جائیں اور معافی مانگی جائے لیکن آج تک اس کی تحقیقات نہیں کی جوکمیٹی بنائی گئی اس نے بھی فقط اتنا ہی کہا کہ فوج کو سوچنے سمجھنے کے بعد عوام پر گولی چلانی چاہیے ۔اور معافی آج تک نہیں مانگی۔اس قربانی کے اصل ہدف کے حصول کا وقت آگیا ہے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور پنجاب کا اصل چہرہ سامنے لایا جائے جو پاکستان کو مضبوط بنائے گا۔ہرجندر سنگھ دلگیر نے کہا کہ جلیاں والا سانحہ 13اپریل 1919کو ہوا اور 15اپریل کو گوجرانولہ میں بھی فوجیوں نے عوام پر گولی چلائی جس میں 12بیگناہ مارے گئے تھے ۔دوسری بات یہ کہ کرنل ڈائر انگریزوں سے متنفر تھا کیونکہ اسے ترقی نہیں ملی تھی اس لئے انہوں نے انگریزوں کو بدنام کرنے کے لئے جلیاںوالا باغ میں گولی چلوائی ۔انگریز انصاف نہیں ظلم کرتا ہے اُدھم سنگھ نے پنجابیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ رائے عزیز اللہ اپنے آپ میں تاریخ ہیں ان کے خاندان نے گروگوبند سنگھ کی جان بچائی تھی سارے سکھ ان کے احسان مند ہیں سکھوں پر ظلم مسلمانوں نے نہیں کئے بلکہ اس وقت کی ریاستوں نے کئے تھے مسلمانوں نے تو سکھوں کو پناہ دی تھی ۔تقریب میں ایڈیٹر روزنامہ پنجابی زبان میاں آصف علی، حکیم آصف گجرسمیت شرکاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پنجابی یونین کے چیئرمین مدثر اقبال بٹ کی جانب سے تقریب میں شرکت کرنے والی نمایاں شخصیات کی دستار بندی کی گئی اورگلوں میں پنجابی سروپا ڈالے گئے۔ تقریب کے اختتام پر سب نے مل کر افطاری کی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں