Zulfiqar Ali shah 122

اسمبلی یاسڑکوں پر فیصلہ

ذوالفقار علی شاہ

شیخ رشید نے جب ق لیگ کے خلاف بیان دیا تو بظاہر ایسا لگتا تھا کہ شیخ صاحب نے یہ بیان دے کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک قسم کا خود کش حملہ کیا ہے لیکن جب دو دن بعد اسی پیرائے اور اسی لہجہ میں اسد عمر نے ق لیگ کے متعلق گل افشانی کی تو پھر یہ بات کافی حد تک سمجھ آ گئی کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے بلکہ حکومت کو اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ ق لیگ اب حکومت کے ساتھ نہیں رہے گی اور اس سے امیدیں ختم ہونے کے بعد ہی یہ بیان دیا گیا ہے لہٰذا اسے خودکش حملہ نہیں کہہ سکتے بلکہ سیاست میں تعلق ٹوٹنے کے بعد مخالف سمت میں جانے کے لئے ابتداکہہ سکتے ہیں ۔اتحادیوں کی بلی کافی حد تک اب تھیلے سے باہر آ چکی ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کے ایک ٹی وی انٹرویو کے بعد کہ جس میں وہ اتحادیوں کے حزب اختلاف کی جانب جانے کے سو فیصد امکانات کی بات کر رہے ہیں ۔اس سے پہلے متحدہ اور بی اے پی والے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ ق لیگ کے پلڑے میںاپنا وزن ڈالیں گے یعنی عدم اعتماد کے حوالے سے جو فیصلہ ق لیگ کرے گی دوسرے اتحادی بھی اسی طرف جائیں گے ۔جی ڈی اے کا موڈ کچھ ففٹی ففٹی ہے کہ اس میں پیر پگاڑہ اور ذوالفقار مرزا ادھر ادھر ہو سکتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ حزب اختلاف کے پاس 163ارکان ہیں اور اسے 172کے ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے صرف 9ارکان کی ضرورت ہے جبکہ متحدہ کے سات اور ق لیگ اور بی اے پی کے پانچ پانچ ارکان ہیں جو ملا کر 17بن جاتے ہیں اور یہ مطلوبہ تعداد سے
8ارکان زیادہ ہیں اس لئے جی ڈی اے کے تین ارکان کی اب اتنی اہمیت نہیںرہ گئی ہاں اگر ان جماعتوں میں سے کوئی حکومتی کیمپ میں جاتی ہے تو وہ ایک علیحدہ بات ہے ۔
تحادیوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا پتا آخر وقت میں ہی چلے گا اس لئے کہ یہ سیاست ہے جس میں ہر فریق آخری وقت تک حالات کو دیکھے گا اور اس کے مطابق زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے ۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن اس وقت عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے کے لئے حکومتی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کی سیاست میں تصادم کے خطرات کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے ۔حزب اختلاف 23مارچ کو اپنا لانگ مارچ شروع کر رہی ہے اور حکومت نے27مارچ کو دس لاکھ بندے ڈی چوک میں جمع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ یہاں ایک بات بتاتے چلیں کہ عدم اعتماد کے حوالے سے ملکی سیاست میں جو گرما گرمی نظر آ رہی ہے اسے آپ سکوت سمجھ لیں اس لئے کہ 23مارچ کو اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس ہو رہا ہے اور حکومت اور حزب اختلاف دونوں فریق اس وجہ سے قدرے خاموش ہیں اور میل ملاقاتوں اور بیانات کی حد تک ہی سیاست ہو رہی ہے لیکن سیاست میں اصل کھڑاک 23مارچ کے بعد ہو نے کا امکان ہے ۔اتحادی بھی اس سے پہلے بیانات اور ملاقاتوں تک ہی محدود رہیں گے اور اتحادیوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا پتا بھی 23مارچ کے بعد ہی چلے گا ۔دوسری اہم بات کہ پی ڈی ایم والوں نے تو کافی پہلے 23مارچ کے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہوا تھا لیکن حکومت نے 27مارچ کو ڈی چوک میں اپنے بندوں کو بلا کر اور پھر ستم در ستم یہ کہ چوہدری فواد نے بڑھک ماری ہے کہ دیکھتے ہیں کہ کس کی جرأت ہو گی کہ اس دس لاکھ کے مجمع سے گذر کر حکومت کے خلاف ووٹ ڈالے گا ۔حکومت کا یہ رویہ ایک قسم کا
کھلم کھلا ملک کو تصادم کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے لیکن اچھا ہوا کہ کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس کے بعد جو لوگ اس ملک میں انتشار اور تصادم کی سیاست کر نا چاہتے تھے انھیں ایک طرح سے شٹ اپ کال دے دی گئی ہے ۔
تصادم اور انتشار ایک بالکل ہی الگ چیز ہے اور کوئی بھی باشعور شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اس طرح کی کوئی صورت حال پیدا ہو کہ جس سے ملک کو نقصان پہنچے اور دوسرا ایسی صورت حال بن جائے کہ جسے بعد میں سنبھالنا کسی کے بھی بس میں نہ رہے ۔تحریک عدم اعتماد حزب اختلاف کا آئینی اور جمہوری حق ہے اور اسے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ناکام بنانا ہر حکومت کا حق ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز ہر گزنہیں کہ کوئی بھی فریق غیر آئینی اور غیرجمہوری راستے پر چلنا شروع ہو جائے اور خاص طور پر ملک میں ایسا ماحول بنا دے کہ جس سے ملک و قوم کو عدم استحکام سے دوچار ہونا پڑے ۔تحریک انصاف کی ایک بات وزن رکھتی ہے کہ جن ارکان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ حکومت کے خلاف ووٹ کاسٹ کریں گے تو ان کا ووٹ قبول نہیں کیا جائے گا حالانکہ اسپیکر ان کا ووٹ کاسٹ ہونے سے نہیں روک سکتا لیکن بحث سے بچنے کے لئے ہم یہ بات مان لیتے ہیں لیکن تین درجن سے زیادہ وہ ارکان کہ جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے تو ان کی حیثیت مختلف ہے اس لئے کہ اب یہ دیکھنے والی بات ہے کہ انھوں نے حکومت کو جوائن کیا تھا یا تحریک انصاف کو۔اگر تو انھوں نے حکومت کو جوائن کیا تھا تو پھر وہ آزاد ہیں کہ کسی کو بھی ووٹ دیں لیکن اگر انھوں نے تحریک انصاف کو جوائن کیا تھا تو اس صورت میں پھر الیکشن کمیشن کو ان کی حیثیت واضح کرنے کا اختیار ہے کہ جو بندہ آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر ایوان کا رکن بنا ہو اور بعد میں کسی جماعت کو جوائن کیا ہو تو کیا اس پر بھی نا اہلی کا قانون لاگو ہوتا ہے یا نہیں ۔اس لئے تحریک انصاف یا اسپیکر قومی
اسمبلی اس حوالے سے جو کہہ رہے ہیں اس پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا اور رہی اتحادیوں کی بات تو وہ تو کسی طرح بھی پابند نہیں ہیں کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں بلکہ وہ مکمل آزاد ہیں کہ چاہے حکومت کے ساتھ رہیں یا حزب اختلاف کے کیمپ میں چلے جائیں ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ حزب اختلاف اگر آئینی راستے پر چل رہی ہے تو حکومت بھی اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے انتشار کی بجائے آئینی راستے کا انتخاب کرے اور ہر حکومتی ترجمان اور وزیر مشیر صبح دوپہر شام حزب اختلاف کو جو تڑیاں لگا رہے ہیں اس کی بجائے اپنے ارکان پر توجہ دیں اور یہ نمبر گیم ہے لہٰذا اپنے نمبر پورے کریں ۔سب کو پتا ہے کہ کوئی بھی فریق اگر لاکھوں کیا کروڑوں کا جلسہ بھی کر لے لیکن اگر عدم اعتماد کی تحریک پر ایوان میں مطلوبہ تعداد میں بندے پورے نہ کر سکا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔تحریک پر ووٹنگ میں ابھی کافی دن ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ اتحادیوں کا اونٹ بھی 24مارچ یا اس کے بعد ہی کسی کروٹ بیٹھے گا ۔ ابھی تو حال یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی رات کو مہر بخاری کو انٹرویو میں کچھ کہتے ہیں دوسرے دن دوپہر کو کچھ کہتے ہیں اور شام کو مجیب الرحمن شامی صاحب کو کچھ کہتے ہیں ۔اس لئے عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا پتا چلنے میں ابھی وقت ہے لہٰذا اس وقت تک گلشن کے کاروبار میں جو تیزی ہے اسے انجوائے کریں کیونکہ ایسی تفریح کے مواقع بار بار نہیں ملتے ۔

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں