98

چہرہ شناخت کرنے والے دنیا کے پہلے سرچ انجن کو پیٹنٹ مل گئی

کیلیفورنیا:پہلے سے ایک متنازعہ کمپنی کلیئر ویو نے مصنوعی ذہانت کی بنا پر ایک سرچ انجن بنایا ہے جو ’چہرہ شناخت کرنے والا دنیا کا پہلا سرچ انجن‘ ہے۔

اس کا پورا نام کلیئر ویو اے آئی ہے جس نے حال ہی میں امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے کئی اداروں سے اشتراک بھی کیا ہے۔

اگست 2020 میں سرچ انجن کے پیٹنٹ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے گزشتہ ہفتے پیٹنٹ عطا کی گئی ہے۔ لیکن اب اس کی خاصی بھاری بھرکم فیس ادا کرنا ہوگی۔

خبروں کی ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کلیئر ویو کے سربراہ ’ہوان تون تھاہ‘ نے کہا ہے کہ ان کی ایجاد اپنی نوعیت کا پہلا پلیٹ فارم ہے جو ’ بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ ڈیٹا‘ کو استعمال کرے گا۔ اس ڈیٹا کو چہرے کی شناخت میں استعمال کیا جائے گا۔ اس کے لیے وہ سوشل میڈیا سے اربوں تصاویر کھینچ نکالے گا جسے ڈیٹا اسکریپنگ کہتے ہیں۔

کمپنی کے مطابق اس کے ڈیٹا میں دس ارب تصاویر موجود ہیں۔ لیکن اس عمل پر انسانی حقوق اور پرائیوسی کے ماہرین نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ قانون ساز ادارے نئی ٹیکنالوجی کے تناظر میں  لوگوں کی پرائیوسی اور ذاتی معلومات کی حفاظت کریں۔

اس ایجاد پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم بھی خاموش نہ رہ سکی۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے رکن میٹ محمودی نے کہا ہے کہ اب جس شے کا تحفظ کرنا ہے وہ بہت ہی مشکل عمل ہے۔ اب کمپنیاں اس پر ملکیت جتاری ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہوگی۔

اگرچہ دنیا کے کئی ممالک اور شہر چہرے کی شناخت کو کم سے کم کرنے کے قوانین بناچکے ہیں اور ان میں یورپی ممالک پیش پیش ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 2015 سے 2019 تک چہرے کی شناخت کرنے والی ہزاروں پیٹنٹ کی درخواستیں دی گئی ہیں جو ایک بڑھتے ہوئے سیلاب کو ظاہر کرتی ہیں۔

دوسری جانب فیس بک سے وابستہ سابق ماہر اور مصنف راجر مک نامی نے کہا ے کہ کلیئر ویو اپنے سرچ انجن کی بدولت جو کچھ کررہا ہے وہ ہمارے ٹوٹے پھوٹے کاپی رائٹ اور پیٹنٹ نظام کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔

کلیئر ویو نے اس پر مؤقف دیا ہے کہ اس کا سرچ انجن کنزیومر پراڈکٹ نہیں ہے بلکہ اس کے خاص مققصد ہیں اور اسے شادی ، تعلقات یا کاروبار وغیرہ کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

کلیئرویو فیس سرچ انجن کا ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اسے قانون نافذ کرنے والے کئی امریکی ادارے استعمال کریں گے۔ ان میں 1803 مختلف ادارے اور ایجنسیاں بھی شامل ہیں جن میں ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ادارے اور دیگر محکمے شامل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں