65

پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کنڈکٹ پر اہم سوالات اٹھا دیے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت ہوئی۔  دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کنڈکٹ پر اہم سوالات اٹھا دیے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سے اجتناب کیا، کیا پارلیمان میں کرنے والا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا نہیں؟ کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے؟

جسٹس منسور کا کہنا تھاکہ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟ عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے تین ججز نے کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کے خلاف چیخ و پکار کر رہےہیں ؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کون سے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، نشاندہی نہیں کی گئی، ایک شخص نے نیب ترامیم چیلنج کیں ممکن ہے اسی جماعت کے باقی ممبران ترامیم کے حق میں ہوں۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا عمران خان چاہتے تو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دے سکتے تھے، انہوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ خالی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطابندیال نےکہا کہ اس نکتے پر عمران خان سے جواب لیں گے، کیا صرف اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟ پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی، ضروری نہیں اس کاکوئی قانونی جواز بھی ہو، بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بے وقوفی لگتی ہے، پارلیمانی کارروائی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے، شاید عمران خان کو معلوم تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو عدالت آ گئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت صرف بنیادی حقوق اور آئینی حدود پار کرنے کے نکات کا جائزہ لے رہی ہے، عمران خان کے کنڈکٹ پر سوال تب اٹھتا اگر نیب ترامیم سے ان کو کوئی ذاتی فائدہ ہوتا، بظاہر درخواست گزار کا نیب ترامیم سے کوئی ذاتی مفاد منسلک نہیں لگتا۔

کیس کی مزید سماعت14 فروری کو ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں