156

خدمت کا جذبہ فلاحی سرگرمیوں کی بنیاد بنا

بلال مدثر بٹ
آج کل ہر انسان اپنے لیے سوچتا ہے اور فکر معاش میں ارد گرد سے لا تعلق سا نظر آتا ہے۔ بے روزگاری ، مہنگائی، بے چینی، بدامنی اور اضطراب میں بے انتہااضافہ ہوچکا ہے، اس صورت حال نے بے شمار معاشرتی، اقتصادی ، تہذیبی اور ثقافتی وتمدنی مسائل کو جنم دیا ہے ۔ اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام شام ہے ،مگر آبادی کی اکثریت ان سے محروم ہے۔ایسے حالات میں قابلِ تحسین ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹنے کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔
وہ دُکھی انسانیت کی خدمت اور فلاحی کام میں حصہ لے کر معاشرے کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں ۔ایک دوسرے کے کام آنا ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کا نقطۂ آغازہے۔جن معاشروں میں انفرادی، اجتماعی، ریاستی اور قومی سطح پر انسانوں میں درد مندی، خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کا جذبہ نظری ، فکری اور عملی طور پر مروج ہے وہ معاشرےعموماًتیزی سے ترقی اور خوش حالی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔
آج کے اس پرفتن دور میں کچھ خواتین بھی فلاحی کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ دوسروں کے لیے روشنی کی کرن ہیں، جو خدمت خلق کے جذبے سے سرشاراپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ایسی خواتین معاشرے کی شان ہیں، وہ بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دے رہی ہیں۔ اس کٹھن دور میں مثبت اور تعمیری سوچ کا ہونا بھی ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں چراغ جلانا۔
ڈاکٹر مدیحہ بتول دُکھی انسانیت کے جذبے سے سرشار ہیں، وہ اولیا کے شہر ملتان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک شاعرہ،کمپیئر اور سماجی کارکن کے طور پر شناخت رکھتی ہیں۔ بہت سے ایوارڈز فنکشنز جن میں سماجی اور ادبی شخصیات کی پذیرائی کی جاتی ہے، ان میں بطور آرگنائزر انتظامات بھی کرتی رہی ہیں۔ کمپیئرنگ کے دوران دل موہ لینے والا لہجہ اور خوبصورت اندازِ تکلم ہوتاہے۔ لہجے کی شستگی میں ملتان کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے اور شخصیت میں ثقافت کے رنگ بھی عیاں ۔ ڈاکٹر مدیحہ سے گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے:
بلال مدثر بٹ: مدیحہ صاحبہ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: جی میں لاہور میں پیدا ہوئی۔ پندرہ اپریل 1984 کی پیدائش ہے۔
بلال مدثر بٹ : ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی۔
بلال مدثر بٹ : والد کس شعبے سے منسلک تھے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: والد مکینیکل سپروائزر تھے۔ زیادہ تر ملازمت بیرون ملک کی اور ان کا زیادہ قیام بھی سعودی عرب ہی رہا۔
بلال مدثر بٹ : اعلیٰ تعلیم کہاں سے حاصل کی اور پڑھائی میں کیسی تھیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: ملتان میں ڈگری کالج کچہری سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کی۔ ایف ایس سی نان میڈیکل اور بی ایس سی میں ریاضی اے، بی اور فزکس مضامین تھے۔ ہمیشہ سے تعلیمی سطح پر سکول میں اول پوزیشن حاصل کی۔ کالج میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرتی رہی۔ پڑھنے میں دل لگتا تھا۔ خاص طور پر ریاضی میں ہمیشہ اچھے نمبرز ہی آئے۔ والدہ نےدراصل گھر میں تعلیمی ماحول اور ٹائم ٹیبل کا خیال رکھا۔ بہت کم ہی ایسا ہوا کہ سکول سے چھٹی کی ہو۔
بلال مدثر بٹ : غیر نصابی سرگرمیوں میں آپ کیسی تھیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: میں سکول کی اسمبلی میں زیادہ تر نظامت کے فرائض سر انجام دیتی۔ نعت پڑھنے کا شوق تھا اور میلاد کا اہتمام کراتی تھی۔
بلال مدثر بٹ : لکھنے کا شوق کب سے ہے ؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : میرے والد اور والدہ کو شعراء کا کلام پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ والد بہت اچھی نثر لکھتے تھے۔ والد کو اچھا کلام سننے کی عادت تھی ۔میں جب ریاضی کے سوالات حل کرنے بیٹھتی تو غزلیں سنا کرتی۔ موسیقی میں شروع سے ہی غزلیں سننا پسند تھیں۔شاید اس لیے ہی طبیعت لکھنے کی طرف مائل ہوتی گئی اور یوں میں نے مڈل جماعت سے ہی لکھنا شروع کردیاتھا۔ایک اور بات یہ کہ مجھے پرائمری جماعت سے ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ پھول، تتلی، خوشبو، دھنک، رنگ، چاند، قدرت کے نظارے ، کبوتروں کی اڑان، تہجد کے وقت کا آسمان، ہریالی، پردیس، وطن، حنا کی خوشبو، یادیں، دوستی، محبت ایسے موضوعات پسندیدہ رہے۔ مجھ پروالد کی شخصیت کا بہت اثر رہا۔ شروع سے ہی سنجیدہ تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی گڑیاسے کھیلنا اچھا لگا ہو کھیلنے کے لیے کتابیں زیادہ اچھی لگتیں تھیں۔ کھیلوں کی جانب بہت زیادہ دھیان نہیں تھا۔والد صاحب بیرون ملک ملازم تھے سو جب کالج کی لائبریری میں کتابیں پڑھتی تو ہجر و فراق، وصل، صحرا اور انتظار جیسے موضوعات پر سوچنے لگی، سائنس کی طالبہ رہی بی ایس سی تک اور جب ایم اے انگریزی ادب کیا تو ادب کی جانب دلچسپی مزید بڑھ گئی۔
بلال مدثر بٹ: آپ نے بی ایس سی کے بعد ایم ایس سی کیوں نہیں کی؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی فزکس میں داخلہ لیا ۔ پہلا سال مکمل نہ کر سکی ۔ شادی ہو گئی۔ پھر میں نے تین سال بعد دوبارہ تعلیم کا آغاز کیا۔
بلال مدثر بٹ: انگریزی ادب پڑھنا کیسا لگا؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : بس یوں سمجھ لیں کہ ایک نیا تجربہ اور نئی وسعتیں نظر آئیں ۔ ساری زندگی سائنس پڑھی مگر جو ادب سے پایا اور ادب پڑھ کر پایا ، وہ بالکل مختلف ہے۔ میرے استاد محترم سر محمد علی جنہیں پہلے کلیمنٹ جون کے نام سے جانا جاتا تھا، ان کی شخصیت اور ادب پڑھنے سے جیسے زندگی کی حقیقتیں، بہت سے فلسفے سمجھنے میں آسانی ملی۔
بلال مدثر بٹ: آپ کیا سمجھتی ہیں کہ ایک استاد کامعاشرے کے سدھار میں کیا کردار ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: ایک استاد ہی کسی بھی انسان کو فرش سے عرش کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ میری زندگی میں دو اساتذہ ایسے ہیں جنہوں نے برسوں پہلے ہی نشاندہی کر دی تھی کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ سماجی لیڈر بنیں گی۔
بلال مدثر بٹ: ایم فل لسانیات کی جانب کیسے رجحان ہوا؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: مجھے لسانیات میں زیادہ دلچسپی اس لیے ہوئی کہ یہ مجھے بالکل سائنسی طریقۂ کار جیسا لگا۔ زبان کسی بھی تہذیب و ثقافت کی ترجمان ہوتی ہے۔ مادری زبان اور قومی زبان کے کردار پر بہت مطالعہ کیا۔ لفظ معنی رکھتے ہیں اور لفظ لفظ حرف حرف زندگی ہے۔ لفظ جذبوں کا پیرہن ہوتے ہیں۔ لسانیات میں ایم فل کیا تو مضامین میں
English for Specific Purpose
Critical Discourse Analysis
کے موضوعات میں دلچسپی رہی۔نصاب کی تشکیل اور لغت پڑھانے کے طریقوں پر تحقیقی کام کیا۔
بلال مدثر بٹ: تدریسی شعبہ میں کہاں منسلک رہیں اور کیا خدمات انجام دیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: میں نے شروع میں تو سکول میں بطور استاد ملازمت کی۔ بچوں کو پڑھانے کا شوق رہا اور سماجی خدمات شروع سے ہی انجام دینے کا شوق تھا۔ چمن ڈسٹرکٹ قلعہ عبد اللہ کے ایک نجی سکول میں بطور پرنسپل کام کرنے کا موقع ملا۔
بلال مدثر بٹ: چمن میں کس طرح آپ نے طلبہ کی تعلیم کے حصول کے لیے آواز بلند کی؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: میں نے سوشل میڈیا کو ایک طاقت ور میڈیا ٹول کے طور پر جانا سو میڈیا کو اپنی طاقت بنایا اور تعلیم کے حصول کے لیے آواز بلندکی جس میں کافی حد تک کامیاب رہی۔
بلال مدثر بٹ:سوشل ورک کی طرف رجحان کیسے ہوا؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول:میں ایدھی صاحب سے بہت متاثر تھی۔ ان کی بے مثال خدمات میرے لیے مشعلِ راہ کی مانند ہیں۔ کالج میں بھی ساتھی طالبات کے ساتھ مل کر مستحق بچیوں کی مدد کیا کرتی تھی۔ اپنے والد کوانسانیت کے لیے درد رکھتے دیکھا تو رجحان سماجی خدمت کی طرف ہوتا گیا۔
بلال مدثر بٹ:شاعری میں آپ کس سے متاثر ہیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول:میں پروین شاکر اور نوشی گیلانی سے متاثر ہوں ۔شاعری مجھے ہمت دیتی ہے،آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
بلال مدثر بٹ: حرا فائونڈیشن کی نامزدگی پر اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری کب ملی؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : رائل امریکن یونیورسٹی کی جانب سے حرا فائونڈیشن کی نامزدگی پر کاسمو کلب میں مارچ 2021 میں تقریب منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملی۔حرا فائونڈیشن کے روح رواں ڈاکٹر ٹونی جاوید جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔
بلال مدثر بٹ: آپ نے امن و سیاحت پر کس طرح کام شروع کیا؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: کے ٹو کنگز ٹورسٹ ایسوسی ایشن میں بطور جنرل سیکرٹری فرائض سر انجام دیے۔ ملک کے حقیقی معاشی استحکام کے لیے سیاحت کا فروغ ضروری ہے۔
بلال مدثر بٹ: ملتان میں کبھی کسی آرگنائزیشن کے ساتھ منسلک رہیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: ملتان میں جےپی او کے ساتھ آغاز کیا۔ سویل آرگنائزیشن کے ساتھ منسلک رہی۔ ماحولیات، حقوق کی آگاہی کے سیمینار، کانفرنس، امن واک اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے بھی کام کیا۔ سویل آرگنائزیشن کے تمام ارکان سے بہت پذیرائی مللی اور انہوں نے ہمیشہ میری کاوشوں کو سراہا۔
بلال مدثر بٹ: معذور افراد کے حقوق کی بحالی کے لیے آپ نے کچھ کیا؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: جی ہاں، معذور افراد کو بھی خوشیوں کا حق ہے اوران کو یکساں حقوق کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ لاہور میں آمور آرگنائزیشن کے ساتھ منسلک ہوں۔ ڈاکٹر لیلتہ القدر اس کی روح رواں ہیں۔ ہم نے معذور افراد میں وپیل چیئر تقسیم کرنے کے حوالے سے بہت کام کیاہے۔
بلال مدثر بٹ: آرگنائزر کے طور پرکام کرنے میں کب سے دلچسپی لی اور مختلف تقریبات کا انعقاد کرنا کیسا لگتا ہے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : سکول کے دور سے ہی شوق تھا اوراس حوالے سے سویل آرگنائزیشن کی تقریبات ایک محرک ثابت ہوئیں۔ سویل آرگنائزیشن نے میری سماجی تربیت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یاسمین خاکوانی، عامر شہزاد صدیقی، منور خورشید، آصف اعوان، تاج محمد تاج سمیت تمام سویل ٹیم نے میرا حوصلہ بڑھایا ہے۔
بلال مدثر بٹ:آپ پیدا لاہور میں ہوئیں ،ملتان آپ کا آبائی علاقہ ہے۔دونوں شہروں میں سے کس سے زیادہ لگائو محسوس کرتی ہیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول:جی لاہور بھی میرا گھر ہے اور اپنے گھر سے کسے محبت نہیں ہوتی،لاہور میرے خوابوں کا شہر اور ملتان میری روح کا حصہ ہے۔ اولیاء کی دھرتی کی ایک اپنی روحانی تسکین ہے۔ میرے دل کا دیس ملتان ہے۔ ہم ملتان کے باسیوں کے لیے ملتان سے دوری ایسے ہی ہے جیسے ہم پردیس میں ہوں۔ دن کی شدید گرمی کے بعد ملتان کی رات کی ٹھنڈی چاندنی بہت لاجواب ہے۔ ملتان کی قدیم تہذیب اپنی دنیا میں ہی گم کر دیتی ہے۔ قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں کوئی صوفی آباد ہوا کرتا ہو گا۔
بلال مدثر بٹ: خواتین کے وہ کون سے بنیادی حقوق ہیں جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ ان پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: وراثتی حقوق کی آگہی کے ساتھ قانونی چارہ جوئی بھی ضروری ہے۔ زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے زچہ و بچہ کی صحت کامعاملہ بھی اہمیت طلب ہے۔ عورت صنفِ نازک کے ساتھ ساتھ صنف آہن بھی ہے۔ عورت کو مضبوط ہونا چاہئے، معاشی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی ،عورت کو بھی تعصبات سے دور ہو کر مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
بلال مدثر بٹ: زندگی میں کئی اتار چڑھائو آئے ہوں گے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : زندگی میں اتار چڑھائو آتے ہیں اور آئے بھی مگران اتار چڑھائوہی نے سکھایا کہ سر اٹھا کر جینا ہی اصل جینا ہے۔ خودی اور اپنا مقام بنانا بہت ضروری ہے۔ وہ انسان ہی کیا جس سے دوسرے انسان کو فائدہ اور فیض حاصل نہ ہو۔
بلال مدثر بٹ: مطلقہ اور بیوہ خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کیا؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: بیوہ اور مطلقہ خواتین کو معاشرے کے عجیب رویوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ان کے لیے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی معاشی خود مختاری کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ان کو کاروباری مواقع میسر ہوں، میں اس حوالے سے کام کررہی ہوں۔
بلال مدثر بٹ: کس طرح کے لوگ آپ کو متاثر کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: اچھے کے ساتھ توسبھی اچھے ہوتے ہیں مگر میں سمجھتی ہوں جو ہر کسی کے بارے میں مثبت سوچیں ، مجھے درحقیقت ایسے لوگ پسند ہے۔
بلال مدثر بٹ: آپ کی منزل کیا ہے، کبھی اس کا تعین کیا ہے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: جی ظاہر ہے منزل پہ نظر نہ ہو تو انسان کھو جاتا ہے،راستہ بھٹک جاتا ہے سو میری بھی ایک منزل ہے اور وہ ہے انسانیت کی خدمت، جس کے لیے میں ہمیشہ تگ و دو میں رہتی ہوں۔
بلال مدثر بٹ: کون سا موسم اور کون سا رنگ پسند ہے؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول : مجھے خزاں میں بھی درختوں کے ساتھ رشتہ رکھنے والا موسم پسند ہےجہاں تک رنگ کی بات ہے تو لال رنگ بہت بھاتا ہے۔
بلال مدثر بٹ:نئی نسل کےنام کوئی پیغام؟
ڈاکٹر مدیحہ بتول: میں یہ کہوں گی اپنے خوابوں کو گھٹن کا شکار نہ ہونے دیں۔ خواب کی تعبیر ڈھونڈیں۔ اپنے خوابوں کی شادابی و خوبصورتی کو ماند نہ پڑنے دیںکیوں کہ خواب مرتے نہیں۔جہاں چوبیس گھنٹے اپنے لیے کام کرتے ہیں وہاں تھوڑا وقت دوسروں کے لیے بھی نکالیں اس سے دل کو سکون ملے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں