169

علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒکا979واں عرس مبارک

پروفیسر عبدالرزاق شاہد

’زندہ دلانِ لاہور‘ کا ذکر تو آپ نے ضرور سنا ہو گا؟ لاہوریوں کی اس زندہ دلی کو ایک دوسرے جملے کےمفہوم میں تلاش کیا جا سکتا ہے کہ ’’ ست دن تے اٹھ میلے، کم کراں میں کیہڑے ویلے؟یہ تب کی بات ہے جب لاہوریوں کی زندہ دلی واقعی مثالی اور لاجواب تھی کیونکہ ان دِنوں شہرِ لاہور میلوں ٹھیلوں کی وجہ سے ملک بھر میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا تھا۔تہوار اور میلے ٹھیلے پنجاب کی ثقافت کا نمایاں حصہ اور معاشی ضرورت رہے ہیں۔پھرعوام الناس کے پاس فراغت جیسی جنس کی فراوانی تھی۔جبھی وہ زندگی سے بھر پور لطف اُٹھانے کے مواقعے ضائع نہیں کرتےتھے، جس سے لاہوریوں کے دل میں زندہ دلی نے گھر کیا۔ دیگر شہروں کے لوگ خوشی کے مواقعوں سے لطف اٹھانا لاہوریوں سے سیکھتے تھے۔ میلہ چراغاں، پار کا میلہ، قدموں کا میلہ یا چھڑیو ںکا میلہ اور سب سے بڑھ کر بسنت کا تہوارایک طرف لاہور کی ثقافت کی نشاندہی کرتا ہے تو دوسری طرف اس موقعے پرلاہوریوں کا جوش وخروش دیدنی ہوتا۔
مگر پھر خوشی کی اس روایت کو نظرِبد کھا گئی۔ کچھ دہشت گردی کے عفریت نے خوشیاں نگل لیں ، رہی سہی کسر  سوشل میڈیا نے نکال دی کہ اب ایسی تفریح جس کیلیے گھر سے باہر نکلنا پڑے، جان جوکھوں کا کھیل بن گئی ہےاولیاء ا للہ کے مزارات پُر انوار پر منعقد ہونے والے عرس اور میلے ٹھیلےایک طرف مخلوقِ خدا کے لیے حاجت روائی کا وسیلہ ہیں تو دوسری طرف تفریح کا ذریعہ بھی، اسی موقعے کے لیے کہاوت ہے کہ ’’نالے گنگا دا نہون نالے دیوی دےد رشن
خالقِ کائنات، رب العالمین نے بنی نوانسان کی رشد و ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور انبیاء کو معبوث فرمایا۔ تا کہ اسے مقصدِ تخلیقِ انساں سے آگاہ کیا جا سکے۔ انبیاء نے اپنے ادوار میں مخلوق کی ہدایت کا فریضہ انجام دیا۔ان انبیاء نے انسان کو ظلمتوں کے بھنور سے نکال کرانکے قلوب میں علم و معرفت کے چراغ روشن کر دیئےپھر قصرِ نبوت کی تکمیل کے لیے خاتم الانبیاء ، فخرِ موجودات،نبیٔ آخر الزماں ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کو معبوث فرمایا۔ چونکہ آقاِ دوجہاں، سرورِ کون و مکاں ، محمد مصطفی ﷺکے بعد سلسلہ ٔ  نبوت ختم ہو گیا۔ اس لیے آقا ﷺ کے بعد امت کی ہدایت اور رہبری کے لیے اولیاء کرام کو یہ منصب سونپا گیا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہےگا۔
اولیاء کرام نے ہر دور میں پیغامِ حق عام کیا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو حق کی راہ دکھائی۔ برصغیر کی سر زمین کواولیاء اللہاور بزرگانِ دین نے خصوصی طور پر رشد و ہدایت کا مسکن بنایا اور شبانہ روز دین کی تبلیغ کا مشن جاری رکھا۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلام کی خوشبو بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ برصغیر کے شہر لاہور میں رشد و ہدایت کی شمع جلانے والے بزرگوں میں ، حضرت داتا گنج بخش  ؒکا نام ِ نامی نہ صرف سر فہرست ہے بلکہ اس دیے سے مزید دیے روشن ہوتے چلے گئے۔یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔مرکزِ تجلیات، منبعِ فیوض وبرکات حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کا وجودِ سعید لاہور اور اہلِ لاہور کے لیے مرکزِ مہر ووفا اور سر چشمۂ تمنا و دعا ہے۔ جن کی محبتیں اور عنایتیں اہل لاہور پر ہمیشہ سایا فگن رہتی ہیں۔آپ کی حیاتِ ظاہری بھی اس خطے کے لوگوں کے لیے سراپا رحمت و عافیت تھی اور آپ کے باطنی و روحانی فیوض و برکات آج بھی اس سر زمین کے لیے محبت،ہمدردی اورخیر خواہی کا ذریعہ ہیں۔
پنجاب کی دینی ثقافت سے حضرت داتا گنج بخش ؒ کی محبت کو جدا کرناممکن نہیں ہے۔ یہ داتا کاہی فیضان ہے کہ برصغیر کے قلب میں موجود شہر لاہور اسی روحانی مرکزیت کے سبب آج بھی مرجع خلائق ہے۔وہی لاہور جومحمود غزنوی کے حملے سے پہلے تک ہندو اکثریت کا شہر تھا۔جس کی گواہی آج بھی اندرون شہر میں ہندووں کی مذہبی عبادت گاہوں کی صورت میں ملتی ہے۔پنجاب کے غزنوی تسلط میں آنےکے بعد یہاں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔لاہور اس پنجاب کا دارالحکومت رہا ۔ محمود غزنوی نے اپنے غلام ’ایازملک‘ کو لاہور میں گورنربنایا۔’ ملک ایاز‘کے عہد میں لاہور کی مسلم آبادی تیزی سے بڑھنےلگی۔ ہندووں کی موجودگی میں مذہبی مسابقت کی وجہ سے ، دونوں مذاہب کے ماننے والے، مذہبی تہواروں کو جوش و خروش سے مناتے۔ 
عرس داتا گنج بخش ؒکی رونق ان سب سے نمایاں ہوتی، جو دیگر تفریحات کی طرح معدوم ہوتی جارہی ہے۔داتاگنج بخش ؒوہ ہستی ہیں جنہوں نے ایک ہزار سال پہلے لاہور بلکہ برصغیر میں رشد و ہدایت کی شمع روشن کی۔جس طرح اندھیرے کو روشنی ہی دور کرتی ہے، ایسے ہی کفر و شرک اور جہالت کے اندھیروں کو نورِ بصیرت اور ہدایت کی روشنی سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔علی ہجویری ؒکے زمانے میں لاہور کی بھی یہی کیفیت تھی ،جہاں شرک کے کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ لاہور سمیت پنجاب بظاہر اسلامی حکومت کے زیر تسلط تھا ، تاہم ان تاریکیوںکوختم کرنا بھی بہت ضروری تھا۔جس کےلیے کسی ایسے مصلح اور مبلغ کی ضرورت تھی جو ان اندھیروں میں شمع ہدایت فروزاں کر سکتا۔ اس مقصدکے لیےقدرت نے ’ابوالحسن علی بن عثمان الہجویریؒ کا انتخاب کیا۔تب علی ہجویریؒ غزنی میں لوگوں کی تعلیم وتربیت اور عبادت و ریاضت میں مصروف تھے کہ پیر ومرشد حضرت ابو الفضل حنبلی کا حکم صادر ہوا۔
مرشد نے ارشاد فرمایا’’ اے فرزند! تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے۔اٹھو اور لاہور جاؤ‘‘مرشد ِکامل کا حکم سن کر آپ نے فرمایا’’ یا شیخ ! میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی لاہور کی قطبیت پر پہلے سے مامور ہیں۔ان جیسی روحانی ہستی کی موجودگی میں اس عاجز کی بھلا کیا ضرورت؟علی ہجویریؒ کے استفسار پر مرشدِ کامل گویا ہوئے، ’ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلا توقف لاہور روانہ ہو جاؤ‘حکم ملتے ہی آپ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصرالدین کے زمانے میں لگ بھگ1039میں لاہور تشریف لائے۔ جب آپ لاہور کے قریب پہنچے تو رات ہو گئی اور شہر کے دروازے بند ہو گئے۔ آپ شہر سے باہر مضافات میں قیام پذیر ہوئے۔صبح جب آپ شہر میں داخل ہونے لگے تو آپ نے جنازے کے ساتھ ایک بڑا انبوہ شہر کے دروازے سے باہرآتے دیکھا ۔ آپ کے دریافت کرنے پر پتا چلا کہ حضرت’ حسین زنجانیؒ رات وصال فرما گئے ہیں۔ تب انہیں مرشد کے حکم کی حکمت بخوبی سمجھ آ گئی کہ مرشدِ کامل نے انہیں بلا توقف لاہورپہنچنے کی ہدایت کیوں کی تھی، حسین زنجانیؒ کی وصیت کے مطابق آپ نے ان کی نمازِ جنازہ کی امامت فرمائی۔ اس واقعے کے بعد آپ پر آشکار ہوا کہ یہاںنہ صرف لاہور بلکہ برصغیر پاک وہند میں تبلیغ اوراشاعتِ دین کی ذمہ داریاں اب آپ کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔آپ کے وجودِ سعید کے سبب سر زمینِ پاکستان بالخصوص پنجاب کو نئی زندگی عطا ہوئی ،اور آپ کے وجودِآفتاب سے ملت کے افق روشن ہوئے۔داتا گنج بخش علی ہجویریؒ وہ پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے جنوبی ایشاء میں تصوف کی اسلامی روایت کی بنیاد رکھی تھی۔
خلافتِ راشدہ کے بعد جب ملوکیت کا دور دورا ہواتو حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔جس کے نتیجے میں کربلا کا دلخراش سانحہ رونما ہوا۔ جس کے بعد آلِ رسول ﷺ کوسخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں، آلِ سادات کے اکثرافراد حکمرانوںکے شر سے بچنے کے لیے دوسرے علاقوں اور ملکوں کی جانب ہجرت کرنے لگے۔حضرت ِامام حسن علیہ السلام کے صاحبزادے زید بن حسن کی اولاد میں سے ایک گھرانا افغانستان کے شہر غزنی میں آ کر آباد ہوا۔ سادات کا یہ گھرانا، علم وفضل کی دولت سے مالا مال تھا۔ جس کی وجہ سے یہ خاندان غزنی میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگاا۔ ان میں سے ایک بزرگ حضرت عثمان ہوئے ہیں جو علی ہجویری کے ولدِ بزرگوار ہیں
شہرغزنی میں دو بستیاں یا محلے تھے ، ایک کا نام جلاب اور دوسرے کا نام ہجویر تھا۔ داتا صاحب کی والدہ ہجویر میں رہتی تھیں اور والد کی سکونت جلاب میں تھی۔شادی کے بعدمیںو ہ بھی ہجویر میںآن بسے،آپ کی ولادت محلہ ہجویر میں ہوئی۔ان دو نسبتوں سے آپ جلابی اور ہجویری کہلاتے ہیں۔آپ کی ولادت کا سن 400ہجری اور عیسوی سن 1009 بتاتے ہیں۔آپ کا گھرانا علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا۔ غزنی شہر بھی ان دنوں علم و معرف کا مرکز تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کا عہد تھا۔ جو علم دوست بادشاہ کی حیثیت سےمعروف تھا۔ غزنی شہر کی حیثیت صرف دارالحکومت کی نہیں تھی بلکہ علمی، ادبی شہر کے طور پر بھی مشہورتھا۔ جہاں نہ صرف دینی مدارس کی کثرت تھی بلکہ بلند پایہ علماء بھی غزنی شہر کہ وجۂ شہرت تھے۔ ایسے ماحول میں علی ہجویری کے والدین اور ماموں نے، جو ’تاج العلماء ‘کے نام سے مشہور تھے، آپ کی     تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے صرف چار سال کی عمر میں قرآنِ مجید کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ والدین سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نہ صرف غزنی شہر بلکہ تاشقند، سمر قند، بخارا، ترکستان، خراسان،نیشا پور، فارس، بیت المقدس ،شام اور عراق کے علماء اور صوفیاء سے اکتسابِ علم و فیض کیا۔آپ خود فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو علماء سے ملاقاتیں کیں اور کسبِ فیض کیا۔ آپ اپنے اساتذہ میں سے خصوصی طور پر شیخ ابوالعباس ؒاور شیخ ابوالقاسمؒ کا بڑے ادب و احترام سے تذکرہ کرتے ہیں۔
آپ نے سلوک کی منازل کی تکمیل کے لیے سلسلۂ جنیدیہ کے جلیل القدر روحانی پیش واہ اور عالمِ دین حضرت ابو الفضل محمد بن حسن جنیدیؒ سے بیعت ارشاد فرمائی۔حضرت علی ہجویریؒ خودحنفی المذہب تھے لیکن سلسلۂ طریقت میں آپ نے حنبلی المذہب شیخ ابوالفضل کی بیعت کی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکابر اولیاءِ امت فقہی اختلافات کے باوجود تعصبات سے پاک تھے۔حضرت شیخ ابو الفضل صاحبِ کشف و کرامات ، جلیل  القدر ولی اللہ ، عارفِ کامل، شریعت مطہرہ کے سخت پابند اور زہد و تقویٰ میں یگانۂ روزگار تھے۔ ’آپ سالکین کو کم کھانے، کم بولنے اور کم سونے کی تلقین کرتے۔ انہی مرشدِکامل حضرت ابو الفضل کے حکم پر آپ لاہور تشریف لائے۔ جب آپ نے لاہور میں قدم رنجہ فرمایا  ’’تو لاہور ہندووں کا گڑھ تھا۔ جہاں ہندو جوگی اور جادوگر وں نے بھولی بھالی عوام کو توہمات اور جادو ٹونے کے چنگل میں پھنسا رکھا تھا۔ تاکہ ان سے نذر نیاز کے بہانے مال اینٹھا جا سکے۔ 
ایک روز آپ نے دیکھا کہ ایک بوڑی عورت دودھ لے کر جا رہی ہے۔ آپ نے اس سے دودھ خریدکرنا چاہاتووہ عورت پریشانی کے عالم میں گویا ہوئی ’’اگر میںنے یہ دودھ فلاں جوگی کی نذر کرنے کی بجائے آپ کو دے دیا تومجھے ڈرہے کہ میری بھینسیںدودھ کی جگہ خون دینے لگیں گی۔یہ سن کر آپ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا’’تم اگر یہ دودھ مجھے بیچ دو گی تو ان شاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جو تمہارا وہم ہے۔ بلکہ اللہ تیری توقع سے بڑھ کر دودھ میں برکت دے گا۔آپ کی گفتگو سے بوڑھی عورت کے دل کو تسلی ہوئی ۔ وہ دودھ آپ کو فروخت کر کے گھر پہنچی ۔ اب جو اس نے مویشیوں کا دودھ دھونا شروع کیا تو اس میں اللہ نے ایسی برکت ڈالی کہ دودھ اس سے سنبھالا نہ گیا۔
جب یہ بات دوسرے گوالوں تک پہنچی تو وہ دودھ کا نذرانہ لے کر، دودھ میں برکت کی غرض سے، آپ کیخدمت میں حاضر ہونے لگے اور فیض پا کر واپس لوٹتے۔انہوں نے جادوگروں کو دودھ کا نذرانہ دینا بند کر دیا۔جب یہ خبر شہر کے بڑے جادوگر تک پہنچی تو وہ غصے میں آگ بگولا آپ کے پاس آیا کیوںکہ اس کی شہرت اور وقار اور کاروبار خطرے میں پڑ چکا تھا۔اس نے آپ کو مقابلے کے لیے للکارا۔ آپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔آپ پر روعب ڈالنے کے لیے اس نے ہوا میں اڑنا شروع کر دیا۔یہ منظر دیکھ کر آپ نے اپنی جوتیاں ہوا میں اچھالیں، جو اڑ کر اس جوگی کے سر پر برسنے لگیںاور جوگی کو آپ کے قدموں میں لا پھینکا۔آپ کی روحانی طاقت کے آگے اس کی ایک نہ چلی ۔ چنانچہ اس نے آپ سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اورآپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگیا۔اس کی دیکھا دیکھی دوسرے ہندو پنڈت اور جوگی ، جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔اس ہندو جوگی جادوگر کا نام ’’رائے راجو‘‘ تھا ۔اسلام لانے کے بعد آپ نے اس کا نام ’’احمد ‘‘ رکھا، جو بعد میں شیخ ہندی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی نسل سے لوگ آج بھی مزارِ اقدس کی خدمت پر معمور ہیں۔گوالوںنے آپ کی کرامت سے مرعوب ہو کر عہد کیا کہ آئندہ ہر ماہ ایک دن اپنا دودھ بیچیں گے نہیں بلکہ دربار کی نذر کریں گے۔ تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، آج بھی عرس کے موقع پر دودھ کی سبیلیں اس کی گواہ ہیں۔     
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام کی مربوط اور منظم کوششوں کا سہرا حضرت داتا علی ہجویریؒ کے سر ہے۔جن کے دم قدم سے دین کی ترویج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور نظام قائم ہوا۔داتا گنج بخشؒ کی اسی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں دنیا کو عظیم اسلامی مملکت میسر آئی، جس کے بارے میںعلامہ اقبال نے فرمایا ’’دنیا بھر میںشائد ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جس میں اسلام کی وحدت خیزقوت کا بہترین اظہار ہوا۔ 
علی ہجویریؒ نےبرصغیر میں ایک ایسے اسلامی مکتبۂ تصوف کی بنیاد رکھی جس کی بلندیوں پر ہمیشہ شریعت و طریقت کا پرچم لہراتا رہے گا۔ آپ نے اس سر زمین میں حقانیت کا جو بیج بویا وہ اللہ کی تائید و نصرت سے ایک تناور درخت بن چکا ہے۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے شہرِ لاہور میں تصوف کی معرکۃ لآرا کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ تصنیف فرمائی۔ جس کے ذریعے صوفیانہ افکار کو مکمل طور پر احکامِ شریعت کے تابع قرار دیا بلکہ تصوف کو شریعت کا امین اور نگہبان بنا کر پیش کیا۔آج ہمیں داتا علی ہجویریؒ کے اسی اخوت و انسان دوستی پر مبنی افکار وکردار اور حیات و احوال کو اپنا رہبر و رہنما بنانا چاہیے ، جس میں آپ فرماتے ہیں کہ اخلاق و معاملات کی پاکیزگی صوفی کے کردار کاوہ جوہر ہے جو اسے گرد و پیش سے ممتاز کرتا ہے۔آپ نے لاہورمیں رشد و ہدایت کی شمع روشن کی۔ جس سے لاہور شہر ہی نہیں گرد ونواح کے لوگ بھی مستفیض ہونے لگے ۔ یوں آپ کی شہر پورے پنجاب میں پھیلنے لگی۔حضرت داتا گنج بخش ؒ کی تعلیمات زیادہ تر آپ کی مشہورِ زمانا تصنیف ’کشف المحجوب‘ کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں پھیلی۔ کتاب لکھنے کا سبب بتاتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ایک دوست ابو سعید ہجویری نے مجھ سےسوال کیا کہ ’’مجھے طریقِ تصوف کی حقیقت، مقاماتِ صوفیاء کی کیفیت، مذہب اور مقالات کا حال، خدائے عزو جل کی محبت کی نوعیت اور دلوں میں اس کے ظاہرہونے کی کیفیت کے ادراک سے پہلے ، حجاب اور اس کی حقیقت کی نفس سے نفرت اور اس کی پاکیزگی سے روح کی تسکین کے بارے میں بتائیں۔سو اس ایک سوال کے جواب میںآپ نے ساری کتاب تصنیف کی۔  فارسی زبان میں لکھی ہوئی آپکی اس کتاب میں اسلامی تصوف کی اصل تاریخ، مختلف صوفیاء کے حالات،سلوک اور طریقت کے عملی مسائل، راہِ سلوک کے اندرونی حجابات کی تشریح کی گئی ہے۔اس کتاب’کشف المحجوب‘کا مطلب ہے ، ’’حجاب کی پردہ کشائی‘‘اب تک یہ کتاب دنیا بھر کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اردو اور پنجابی میں اس کے ایک سے زیادہ تراجم ہو چکے ہیں۔جس سے دوسری زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تصوف کے فلسفے کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔
قیامِ لاہور کے دوران آپ اس جگہ قیام پذیر ہوئے جہاں آج آپ کا ابدی مسکن ہے۔ تب یہاںقریب ہی دریائے راوی گزرتا تھا۔ یہاں آپ نے سادہ سی مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔آپ کی تعمیر کردہ خانقاہ بعد میں برصغیر کی تمام خانقاہوں ، مذہبی مدارس اور اسلام کی اشاعت و تبلیغ  اور تعلیم و تربیت کی مستحکم بنیاد ثابت ہوئی۔ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو بعض لوگ معترض ہوئے کہ قبلہ کی سمت درست نہیں۔ آپ خاموش رہے۔ جب مسجد مکمل ہو گئی تو آپ نے شہر بھر سے علماء کو نماز کے لیے بلایا اور خود امامت فرمائی۔جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا۔ تم لوگ معترض تھے کہ قبلہ کا رخ غلط ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ قبلہ کس رُخ پر ہے۔ جب انہوں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو قبلہ سامنے نظر آیا۔تب سب شرمندہ ہوئے اور معافی کے طلب گار ہوئے۔
ایک حوالے کے مطابق آپ نے 34برس کے لگ بھگ لاہور میں قیام فرمایا۔اور رشد و ہدایت اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔آپ نے لاہور ہی میں صفر المظفر کی 20تاریخ کووصال فرمایا،آپ کو لاہور کے مشہور بھاٹی دروازے کے باہر دفن کیا گیا ۔جہاں ناصرالدین مسعودکے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے خوبصورت مزارِ مبارک تعمیر کروایا ۔ خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کروائی۔کچھ عرصا پہلے وسیع مسجد کی دوبارا تعمیر ہوئی۔ 
برصغیر میںچشتیہ مسلک کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒاجمیر شریف نے علی ہجویریؒ سے کسبِ فیض کیا۔انہوں نے دربار پر ’چلہ کشی‘ کی ، مرقد کی پائنتی کی جانب وہ جگہ ایک کھلے حجرے کے طور پر ’چلی گاہ ِ معین الدین چشتیؒ کے نام سے محفوظ و موجودہے۔ انہوں نے یہاں سے کسبِ فیض کے بعد رخصت ہوتے ہوئے یہ شعر کہا جو آج زبان زدِ عام ہے

گنج بخش، فیضِ عالم، مظہرِ نورِ خدا
نا قصاں، را پیرِ کامل، کاملاں، را راہنما
تب سے علی ہجویری ؒنے ہرخاص و عام میں ’داتا گنج بخش‘ کے نام سے شہرت پائی۔ اور اسی نسبت سے لاہور کو ’داتا کی نگری‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔صفر کی18تاریخ سے آپ کا979واں تین روزہ عرس شراع ہوچکا ہے۔جو کبھی لاہور کا سب سے بڑا تہوار اور تفریح کا موقع سمجھا جاتا تھا۔ لاہوری اس تفریح سے جی بھر کر لطف اندوزہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے انشاء ا للہ۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں