125

وزیراعظم اور آرمی چیف سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فعال

فیصل ادریس بٹ

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہی نہیں سب سے جدید اور خوبصورت ترین شہر بھی کہلاتا ہے اسے پاکستان حکمرانوں نے اپنے آرام اور عوامی ہنگاموں سے دور رکھنے کے لئے تعمیر کیا اس سے قبل کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھاجو مہاجرین کی آمد کے بعد ایک گنجان آباد شہر بن گیا، جہاں عوامی سیاسی شعور کی سطح بھی ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ بلندتھی۔ اس لئے جمہوری غیر جمہوری حکمرانوں کو اس جھنجھٹ سے بچانے کیلئے اسلام آباد جیسے پْرسکون شہر کو بسانے کا اہتمام کیا گیا۔ مگر افسوس تیس چالیس سال بعد ہی یہ شہر بھی عوامی ردِعمل کی زد میں آنے لگا جب ایک مذہبی تنظیم نے اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آ باد کی طرف مارچ کیا پھر اس کے بعد تو چل سو چل خاص طور پر عمران خان کے دھرنوں اور جلوسوں نے تو اسلام آ باد کا کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں سے فرق ہی مٹا دیا۔ اب جس کا جی چاہتا ہے منہ اْٹھا کر ’’چلو چلو اسلام آباد چلو‘‘ کا راگ الاپتا ہوا اسلام آباد کا رْخ کر لیتا ہے، وہاں دھرنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی چوک کو تو برطانیہ کا ’’ہائیڈ پارک‘‘ کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ اس شہر نے ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر، ضیاء الحق، نوازشریف، مشرف اور عمران خان کی حکمرانی کرتے دیکھا۔ اسلام آباد کے ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس نے غلام گردشوں میں طاقتور حکمرانوں کی دھاک دیکھی اور سازشی عناسر کے قدموں کی چاپ سْنی۔
آجکل یہاں مسلم لیگ (ن) وزیراعظم میاں شہبازشریف وزیراعظم ہاؤس میں جبکہ ایوان صدر میں عارف علوی جو پی ٹی آئی سے ہیں، براجمان ہیں۔ میاں شہبازشریف ایک سخت گیر حکمران کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی سخت اور بروقت مانیٹرنگ کے قصے ابھی تک عوام کو یاد ہیں۔ان کے انداز سیاست کو ’’شہباز سپیڈ‘‘ کہہ لیں یا طرز حکمرانی عوام میں مقبول ہے۔ جب وہ وزیر اعلیٰ تھے چاروں صوبوں میں ان کا طرزِ حکومت پسند کیا جاتا اور باقی صوبوں کے عوام بھی پنجاب کی طرح کی حکومت کے خواب دیکھتے تھے ۔پھر کرنا یہ ہوا کہ عمران خان برسراقتدار آئے تو ’’نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘‘ کے مصداق سب کچھ بدل گیا۔ وقت نے پھر پلٹا کھایا آج کل اقتدار کا ہْما شہبازشریف کے سر پر بیٹھا ہے وہ بطور وزیراعظم اسلام آباد میں فروکش ہیں مگر اس بار انہیں شہباز کرے پرواز کیلئے کھلی فضا میسر نہیں۔ اسلام آباد کے چاروں طرف ان کے مخالف عمران کے حامیوں اور اتحادیوں کی صوبائی حکومتیں ہیں ۔
اس کے باوجود ان کی کوشش ہے کہ وہ ملک کے تباہ حال معاشی نظام کو درست کر دیں۔ عرب ممالک اور چین کے علاوہ تارکین وطن کی بھرپور امداد کے باعث معاشی حالت مضبوط ہوئی توایک نیا امتحان درپیش تھا۔ مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی رقبہ اس وقت شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں قومی ایمرجنسی یعنی ہنگامی حالت نافذ ہے۔ مگر پانی ہے کہ طوفان نوح کی طرح ابل رہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں، ہزاروں ہلاک ہو چکے، اربوں کا نقصان ہوا، کروڑوں کے لاکھوں جانور مر گئے، لوگ کھانے پینے کیلئے محتاج ہو گئے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں بھی میاں شہبازشریف اپنی بیماری کے باوجود ملک کے کونے کونے میں متاثرین سیلاب کی داد رسی کے لئے ان کی امداد کیلئے جاری سرگرمیوں کی نگرانی کرنے پہنچ رہے ہیں ۔اس کے علاوہ پاک فوج بھی ہمیشہ کی طرح چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں دن رات مصروف عمل ہے۔اس کے برعکس چاروں صوبوں کی پی ٹی آئی کی قیادت اپنے قائد کے جلسے جلوسوں کو کامیاب بنانے میں میں سر گرداں ہے۔
اس سیلاب میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں متاثرین کی مدد کے لیے مسلح افواج جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں انتہائی محنت کررہی ہے جنرل باجوہ نا صرف خود سیلاب زدگان کے دکھ مسائل انکے پاس پہنچ کر سن رہے ہیں بلکہ تمام کور کمانڈرز کو بھی متحرک کر رکھا ہے حال ہی میں تعینات ہونے والے کور کمانڈر کوئٹہ جنرل آصف غفور نے بلوچستان میں بد ترین سیلاب کی تباہ کاریوں کی بحالی کے لیے دن رات کام شروع کر رکھا ہے ۔جنرل آصف غفور اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی ورکنگ ریلیشن شپ میں سیلاب زدگان کی بحالی کا کام جاری ہے ۔
شہباز شریف بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے خاصے پریشان ہیں جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم کو انتہائی چیلنجز کا سامنا ہے ایک جانب ملک میںسیلاب کی تباہ کاریوں سے رعایا کو درپیش مشکلات تو دوسری جانب معیشت کی بحالی اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کا انتہائی سخت سامنا ہے مشکل کی اس گھڑی میں جب شہباز شریف کا دل خون کے انسو رو رہا ہے قیمتی جانوں کا ضیاع عوام کے مال مویشی گھروں کی بربادی عوام روٹی کے لیے ترس رہے ہیں عین اسی وقت اپوزیشن بھرپور سیاست کر رہی ہے عمران خان کو حکومت بارہا درخواست کررہی ہے کہ آؤ ملکر ملک اور عوام کو اس مشکل سے نکالیں مگر وہ سرکاری اخراجات کے ذریعے جلسے جلوسوں کا انعقادکرکے ملک میں مزید افراتفری پھیلا رہے ہیں ۔وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی تو ایک نیک دل منجھے ہوئے عوام کے دکھ درد کا مدوا کرنے والے سیاست دان ہیں انھیں خان صاحب کو سمجھانا چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پارٹی کومتاثرین کے ریلیف کیلئے امداد و بحالی کا ٹاسک سونپا جائے ۔
میں آجکل وفاقی دارلحکومت میں پڑاؤ ڈالے بیٹھا ہوں مختلف حکومتی محکموں کے افسران سے ملاقاتوں کے علاوہ سیاستدانوں سے بھی ملاقاتیںجاری ہیں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تمام تر محکموں کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ اپنے اپنے لیول پر سیلاب زدگان کی مدد کے پروگرام ترتیب دیں۔ اسی طرح محکمہ اطلاعات کو بھی ہدایات ملی ہیں کہ وہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں ۔جس پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سیکرٹری اطلاعات شاہیرا شاہد کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دیدی۔ محترمہ شاہیرا شاہد اپنے تمام افسران کو سیلاب زدگان کی امداد سے لیکر انکی مدد کے لیے مخیر حضرات اور اداروں کو متحرک کرنے کا جامع پروگرام تشکیل دیا ہے ۔سیکرٹری اطلاعات و نشریات محترمہ شاہیرا شاہد کی مضبوط ٹیم جس میں طاہر حسن، سہیل علی خان، مبشر حسن ، رئیسہ عادل اورنگزیب ہرل شامل ہیں سیلاب زدگان کی بہتری کے لیے بھرپور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وفاق کے ماتحت ایسے بہت سے محکمے ہیں جنکے پاس اربوں روپے کے بجٹ موجود ہیں انکے مقابلے میں محکمہ اطلاعات کے پاس اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر بجٹ ہے جو انکی اپنی ضروریات کے لیے بھی ناکافی ہے مگر وزیراعظم کی ہدایات پر صرف وفاقی محکمہ اطلاعات و نشریات ہی دیانتداری سے ملک و قوم کی خدمت کرنے میں دن رات مصروف عمل ہے۔ محترمہ شاہیرا شاہد اور دیگر افسران اپنے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرکے نا صرف معیشت کی بحالی کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں بلکہ اور سیز پاکستانیوں میں اسے اچھے طریقے سے پیش کرکے اپنی پروفیشنل خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ویسے وزیر اعظم شہباز شریف کو تجویز مناسب لگے تو وہ سیلاب زدگان کی بہتری اور متاثرین کے لیے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے سرکاری اداروں پر مشتمل وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں مانیٹرنگ سیل قائم کریں تاکہ اچھی کارکردگی دیکھانے والے افسران اور محکموں کو تعریفی سرٹیفیکیٹس دیے جائیں ۔تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ سہیل علی خان کو وفاقی حکومت نے تالاب سے نکال کر دریا میں لانے کا خوش کن اقدام کیا ہے ۔انکی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کے پیش نظر انھیں ایم ڈی پی ٹی وی کا چارج بھی سونپا گیا ہے انکے ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات و نشریات تقرر سے میڈم شاہیرا شاہد کی ٹیم مزید مضبوط ہوگی۔
ریڈیو ٹی وی میں موجود سقم کو بھی ٹھیک کرنے کا موقع ملے گا اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ وزیر اعظم شہباز شریف ، وفاقی کابینہ کی حقیقی ترجمانی کرکے ملک و قوم کے لیے بہتر خدمات انجام دے سکے گا۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں انفارمیشن گروپ کی گریڈ اکیس کی ایک سیٹ تاحال خالی پڑی ہے جس پر پریس سیکرٹری ٹو وزیراعظم تعیناتی کا ازسر نو نوٹس لینا چاہیے تاکہ حکومتی کارکردگی مزید اجاگر کی جاسکے۔ اس دوران ملک و قوم شکر گزار ہے کہ گلگت بلتستان میں سیلابی ایمرجنسیختم ہونے پر نقصانات کے ازالے کے لیے سروے شروع کردیا گیا ہے ۔جی بی کے چیف سیکرٹری محی الدین وانی اور ان کی ٹیم سیلاب میں قابل تعریف کارکردگی پر مبارکباد کے مستحق ہے۔ مصیبت سے نکلنے کے بعد گلگت بلتستان میں تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کے سپورٹس گالا کا انعقاد کیا گیا ہے،جس کی دوسرے صوبوں کو بھی تقلید کرنی چاہئے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں