228

جشن وارث شاہؒ اور کُل پنجاب محفل مشاعرہ

اعظم توقیر

پنجابی زبان کے معروف شاعر حضرت پیر وارث شاہ ؒ نے کیا خوب کہاتھا کہ ’’وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نیں …جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں نی‘‘۔اسی طرح سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ نے فرمایا کہ ’’نام فقیر تنہاندا باہُو… قبر جنہاندی جیوے ہُو‘‘
کتنی سچائی ہے ان دو مصرعوں میںکہ نام ان کا ہی باقی رہتا ہے جو لوگ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندگی گزارتے ہیںاور ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں،وہ کیا کسی نے کہا تھا کہ ’’ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘‘اور اس شعر کی تشریح معروف صحافی اور دانشور مدثر اقبال بٹ ہیں ۔
مدثر اقبال بٹ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو کئی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ایک طرف وہ ایک ذمہ دار باپ ہیں اور پورے گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہےتو دوسری طرف وہ ایک منجھے ہوئے صحافی ہیں اور دو اخبارات کے ساتھ یو ٹیوب چینل بھی چلا رہے ہیں ،مدثر اقبال بٹ کو پنجابی زبان و ادب سے گہرا لگائو ہے اور پنجابی زبان بالخصوص ان کے ایمان کا حصہ بن چکی ہے۔وہ ہر وقت پنجابی زبان کے لیے تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ،پنجابی اخبار ’’بھلیکھا‘‘ کے ساتھ ساتھ کبھی پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے سیمینار کراتے ہیں تو کبھی مشاعرے۔ان کی پنجابی سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ اپنی جیب سے پنجابی شعرا اورادبا کی کئی کتابیں چھاپ چکے ہیں اور یہ سفر تا حال جاری و ساری ہے۔پنجابی زبان کی ترقی کے لیے انہوں نے ایک ادارہ’’ پنجابی یونین‘‘ کے نام سے قائم کررکھا ہے۔اس ادارے کے تحت اب تک سینکڑوں ادبی پروگرام منعقد ہو چکے ہیں۔26جولائی کو جشن پیر سید وارث شاہؒ کے حوالے سے انہوں نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے معروف شعرا نے شرکت کی جن میں عرفان صادق، جان کاشمیری،سید محمود بسمل،ڈاکٹر صغیر احمد صغیر،خالد ندیم شانی ، شاہ دل شمس ،جی ایم ساقی،اسلم شوق،احمد علی کیف،سلمان رسول،سید فراست بخاری،افی گجر،مشتاق قمر،رائے عابد علی عابد،وحید ناز،یوسف یار،طاہر ہاشمی،جی اے نجم،لطیف ساجد،احمد اقبال بزمی،وارث گگوی اور دیگر شامل تھے ۔
مشاعرے کی صدارت ملک کے معروف شاعر عرفان صادق نے کی جب کہ مہمانانِ خصوصی میں جان کاشمیری،سید محمود بسمل،ڈاکٹر صغیر احمد صغیر،خالد ندیم شانی اور شاہ دل شمس تھے۔مشاعرے کی نقابت اعظم توقیر نے کی، تقریب کا آغاز کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت جی ایم ساقی نے حاصل کی جس کے بعد جی ایم ساقی اور معروف نعت خواں نبیل نظامی نے خوبصورت آواز میں نعت رسول کریم ؐ پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔مشاعرے میں پڑھے گئے کلام سے نمونہ کے طور پر چند اشعار پیشِ خدمت ہیں :

تیرے پچھے نیتی ہوئی اے
ساڈا دین ایمان نہیں ٹُٹنا
ویکھیں ساتھوں جان نہ منگیں
ساتھوں تیرا مان نہیں ٹٹنا
عرفان صادق
……..
عشق دا سُوتر کتتدے کتتدے
مُک گئی دل دی پونی پونی
ماہل ٹُٹی جد ساہواں والی
رُک گئے چرخے چلدے چلدے
جان کاشمیری
……..
محض چل کر سُوئے مقتل نہیں جانا ہے مجھے
بوجھ زنجیر کا بھی ساتھ اٹھانا ہے مجھے
اُس نے غیروں کی رفاقت پہ مجھے چھوڑا تھا
اب سرابوں سے اُسے ڈھونڈ کے لانا ہے مجھے
سید محمود بسمل
……..
بھاویں کوئی حیثیت نہیں
میں تیری ملکیت نہیں
لوکاں لئی توں میرا ایں
دس کھاں یار اذیت نہیں
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر
……..
دل کا یہ شہر بھی لاہور ہوا جاتا ہے
اس جہانگیر کو اک نورجہاں دیکھتی ہے
آنکھ تو آنکھ ہے پھر خواب سجا لیتی ہے
یہ مری ڈھلتی ہوئی عمر کہاں دیکھتی ہے
خالد ندیم شانی
……..
نہ رانجھا ہے کوئی زندہ نہ کوئی ہیر زندہ ہے
جو وارث شاہ ؒ نے لکھی وہ اِک تحریر زندہ ہے
مری بے نور آنکھوں میں لٹی دل کی حویلی میں
کسی کے ہجر کی لٹکی ہوئی تصویر زندہ ہے
شاہ دل شمس
……..
غماں نوں ڈیک لا کے پی گیا واں
سمندر سی ، میں چا کے پی گیا واں
کدی ہاسے پیالے وچ نیں گھولے
کدی اتھرو ملا کے پی گیا واں
اعظم توقیر
……..
آپ کو آگ بجھانے کے لیے بھیجا تھا
آپ نقصان کی تفصیل اٹھا لائے ہیں
……..
ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہیں ملازمت کی
ہمارے وعدے ہماری چھٹی سے منسلک ہیں
لطیف ساجد
……..
رات ھنیری تارے کوئی نہیں
ڈونگھے پیر کنارے کوئی نہیں
جِت جاواں دے اگلی واری
ہارے آں پر ہارے کوئی نہیں
طاہر ہاشمی
……..
کنڈیاں نال یرانہ لا کے ویکھ لیا
لیراں لیراں سوچ دے بانے ہو گئے نیں
……..
اپنے اندر خواہشوں کی با رہا ترمیم کی
پھر بگڑتے کیوں گئے قسمت کے تیور اور بھی
رائے عابد علی
……..
بن عملاں دے کم نہیں آندی کوئی وی تدبیر
لکھاں واری بھاویں پڑھیے وارث شاہؒ دی ہیر
سید فراست بخاری
……..
آ وے ماہی رب ساون لایا
اتوں لہہ پئیاں رم جھم کنیاں
یار یاراں دے کول پئے وسدے
ساڈے دم تے اوکھیاں بنیاں
محمد یوسف یار
……..
جھوٹھ دا سوداوِکدا اے
اچھا خاصا وِکدا اے
احمد اقبال بزمی
……..
تیرے پنڈ نوں بس نہیں آئوندی
یار ،سفر دی چس نہیں آئوندی
……..
توں میرے لئی موہرا بنیا
میں تیرے لئی کھنڈ رہیاواں
احمد علی کیف
……..
میں منطقہ غم ہوں، آلام کا مسکن ہوں
رنج آب و ہوا میری دُکھ رقص کناں مجھ میں
سلمان رسول
……..
بھاویں لو نہ مانن دے
بھورا کوں تے چانن دے
چُپ کر بولن دے اوہنوں
چُپ کر ذات پچھانن دے
نصیر احمد
……..
ہتھاں وچ بس تالی ریہہ گئی
کجلے دی اکھ خالی ریہہ گئی
لوکاں شہر وسا لئے اینے
ویہڑے وچ بس ٹاہلی ریہہ گئی
مشتاق قمر
……..
پباں بھار ای چل کے عمر گزاری اے
دکھاں تے میں رل کے عمر گزاری اے
ویلے دی اس بھکھدی ریہندی بھٹھی اندر
لوہے وانگوں گل کے عمر گزاری اے
وحید ناز
……..
سوج ڈھا ل کے چانن کرنا پیندا اے
دیوا گال کے چانن کرنا پیندا اے
اوہد ی یاد نوں گھر دا رستہ دسن لئی
نھیرا بال کے چانن کرنا پیندا اے
جی اے نجم
……..
عشق تمے توں کوڑا ہندا
لوکی وانگ شہد دے چکھدے
ہجر فراق دے ناگ زہریلے
لوکی سانبھ سانبھ کے رکھدے
جی ایم ساقی
……..
شہباز کیہ زرداری نے
پیار وفا توں عاری نے
کرسی دے پجاری نے
سارے لوک مداری نیں
اسلم شوق
……..
ہاسا لکھ کے گھوری پڑھیا
کنا غیر ضروری پڑھیا
میم محبت ہووے گی
میم توں میں مزدوری پڑھیا
افی گجر
……..
توں لائے جہڑے دوستا
اوہ پھٹ سیندا پھرنا واں
زہر تیری جدائی والا
میں پیندا پھرنا واں
وارث گگوی
مشاعرے کے آخری لمحوں میں مدثر اقبال بٹ نے تمام شرکا کا فرداً فرداًشکریہ ادا کیا اور کہا کہ پنجابی ہائوس تمام پنجابیوں کا گھر ہے اورکوئی بھی دوست یہاں تقریب کا انعقاد کرنا چاہے توہماری پوری ٹیم تعاون کے لیے حاضر ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں