150

مشتاق بٹ

پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے اس دھرتی کے سپوتوں نے اپنے تئیں پوری کوشش کی ہے۔ سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث دنیا کی اہم ترین زبانوں میں شمار کی جانے والی ماں بولی کی بقا کو جب خطرہ محسوس ہوا تو اس دھرتی کے باسیوں نے آگے بڑھ کر اپنی سرزمین اور اس کی رہتل کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا، شاعری کی، مشاعروں کا انعقاد کیا، میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا، ثقافتی شوز کیے اور حقیقت یہ ہے کہ لوگ اب پنجابی زبان کے فروغ میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اس باب میں مشتاق بٹ کا ذکر نہ کرنا مناسب نہ ہوگا۔
پنجابی پڑھائو تحریک کے رہنما مشتاق بٹ پوری زندگی پنجابی کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے سرگرم رہے۔ پنجابی یونین کے زیرِاہتمام اگلے روز ان کی برسی کے موقع پر پنجاب ہائوس لاہور میں ایک پروقار مگر سادہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت الیاس گھمن نے کی جب کہ مہمان خصوصی متین سعید تھے۔
پنجابی میڈیا گروپ کے سربراہ مدثر اقبال بٹ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا،
مشتاق بٹ جیسی ہستیاں قوموں کا مان ہوتی ہیں، انہوں نے پنجابی بولی کے فروغ کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ پنجابی کی تدریس کے لیے ان کی جدوجہد لائقِ تحسین اور قابل فخر ہے، ان جیسی تحریک آج تک کوئی پنجابی نہیں چلا سکا۔
الیاس گھمن نے کہا،
مشتاق بٹ نے اپنا سب کچھ پنجابی زبان و ادب کے نام وقف کر دیا، پنجابی کے لیے جو قربانیاں مشتاق بٹ نے دی ہیں، وہ کبھی فراموش نہیں جا سکتیں، ان جیسی کامیابی بھی کوئی حاصل نہ سکا۔
زاہد حسن نے کہا،
مشتاق بٹ پنجابیوں کا ہیرو ہے جس نے پنجابی زبان کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا،
وہ (مشتاق بٹ) اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنی مختصر زندگی میں وہ کام کر گئے کہ پنجاب کی تاریخ کے ناقابلِ فراموش کردار بن گئے۔ جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا اجتماع ہو گا تو مشتاق بٹ کا لازمی ذکر ہوگا۔
میاں آصف علی پنجابی نے کہا،
پنجابی تحریک میں مشتاق بٹ جیسا کوئی ایک بندہ بھی 40 سال میں نہیں آیا، جب تک مشتاق بٹ جیسے لوگ پنجابی تحریک کی قیادت کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے، پنجابی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ ان جیسی ریلی تو دور ان سے نصف تعداد میں لوگ ریلیوں میں اکٹھے نہیں ہو پاتے۔
متین سعید نے کہا،
مشتاق بٹ پنجاب دھرتی کا سچا بیٹا ہے جس نے پنجابی کے لیے سڑکوں پر نکل کر تاریخی جلوس نکالے جن کی مثالیں آج تک دی جاتی ہیں۔ اس جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب یونیورسٹی لاہور اور شاہ حسین کالج لاہور میں پنجابی زبان کی تدریس کا سلسلہ شروع ہو سکا۔
بلال مدثر بٹ نے کہا،
پرائمری کی سطح پر پنجابی کی تدریس مشتاق بٹ کا وہ خواب تھا جو ان کی زندگی میں پورا نہ ہو سکا۔ لیکن جتنا کا م وہ کر گئے انہیں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں