175

عرض اور فرض

آج تو وہ سر شام ہی ملنے کو چلے آئے کہنے لگے
”،کیا آپ جانتے ہیں اُس کے گھر کئی روز سے فاقہ ہے ؟”
میں حیران ہوا
”،کس کے گھر ؟
”،وہی جو آپ کے محلے میں ہسپتال کے ساتھ گلی کے دوسرے مکان میں رہتی ہے رہتی بھی کیا ہے بس اس عمر رائیگاں کے دن
گذار رہی ہے ”٫
میرے دوست تاجر ہیں مالی حالت اچھی ہے بڑی اچھی سوچ کے مالک ہیں اپنے خالق سے محبت کرتے ہیں کسی مفلس کو کچھ دیں تو راحت محسوس کرتے ہیں ۔ان کی یہ باتیں سنی تو سنی ان سنی نا کر سکا ایسے لگا کہ مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا ۔انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا شاید میرے چہرے کی لکیروں میں ندامت کی نمی ڈھوڈند رہے تھے ۔کہنے لگے
”،اس کا صرف ایک کمرے پر مشتمل گھر گلی سے آٹھ فٹ نیچے ہے باتھ روم بھی اوپن ہے یہ بھی کسی نے ہی بنوا کر دیا اس کے ہاںا بھی دروازہ لگوانے کی استطاعت نا تھی اس روز زوروں کی بارش تھی جب یہ صاحب ِ دل دوست ملنے آئے
میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا اے میرے مالک اپنی مخلوق پر رحم فرمایا تو بڑا سخی مالک ہے یہ نشیبی بستیوں والے دیکھنے میں تو انسان ہیں مگر معاذ اللہ نالی میں رینگنے والے کثیر پا کیڑے جیسی زندگی گذارتے ہیں ان کی قسمت میں نشیب ہی نشیب ہو تے ہیں نشیبی سوچ نشیبی باتیں نشیبی تہذیب و تمدن نشیبی عاد ت ا طوار یا الٰہی الحمدُاللہ تیرے کرم سے میرا تو اچھا گذارا ہو رہا ہے رہائش بھی اچھی ہے طوفانِ بادو باراں میں مجھے کو ئی مسئلہ نہیں ہو تا موسلا دھار بارش میں بھی پانی میرے گھر میں نہیں آتا مگر جس گھر کا جس خاتون کا ذکر میرا دوست کر رہا ہے یہ انسان ہیں اور تیرے شاہکار ہیں ۔مجھ پر تیرا کرم ہے (اس میں میرا کو ئی کمال بھی نہیں )مگر اے مالک اس خاندان کو رُلنے سے ضائع ہو نے سے بچا لے
”،میرا کام عرض کرنا ہے کسی پر فرض کرنا نہیں ”٫میرا دوست دوبارہ بولا تو میں چونک اُٹھا
”،پھر ؟”میں ہنکارا بھرا
”،میں نے آج اُس گلی میں اس گھر میں گیا تھا اپنے بچوں کو بھی لے کر گیا ۔کچھ نوجوان دوست بھی ساتھ تھے ”
”،وہ کس لئے ”٫
”،وہ اس لئیے کہ نماز تو پڑھ لی تھی اب نماز ادا کرنا چاہتے تھے نماز ائم کرنا چاہتے تھے ”٫
”،آپ نے اس مقصد کے لئے کیا کیا ؟”٫
”،ایک مستری بھی ساتھ لے کر گیا تھا کچھ حساب کتاب کیا جوانوں سے کہا جو بھی دے سکو مل جُل کر انھیں چھت تو فراہم کریں ان کے باتھ روم کا دروازہ تو لگوا دیں اس مقصد کے لئے کو ئی ایک اینٹ بھی دے تو شکر گذار ہوں گا کو ئی ایک کا نہ (سر کنڈا )دے تو ممنون ہو ں گا میں ان کے گھر میں (جسے گھر کہنا مناسب تو نہیں) مزدوری کروں گا یہ میری ڈیوٹی ہے یہی نماز ائم کرنا ہے نماز کا آخری مقصد کیا ہے ؟”
میں نے خجا لت سے کہا
”،آپ ہی بتا دیں ”٫
”،نماز کا مصد یہ ہے کہ زندگی صفتِ صلواة پر آ جائے ”٫
”،کیا مطلب ؟”
”،یعنی نماز کے بعد بھی زندگی نماز ہی کی طرح ہو جائے یا بن جائے جیسے رب کی مان کر اس کے سامنے جھکتے ہیں ویسے ہی مسجد سے باہر بھی زندگی مسجد کے اندر والی زندگی ہی کی طرح ہو نماز بھی کمال کی عبادت ہے جس میں سبھی ارکان ِ اسلام شامل ہیں اس کا آغا ز اللہ اور اس کے رسول اکرم ۖپر ایمان و یقین اور رسالت کے اقرار کو دل میں رکھ کر ہو تا ہے یعنی پہلا رکن نماز کا آغاز ہے اور اس کے بعد نماز خود دوسرا رکن ہے اگر پانچ نمازوں کو دن رات کے اوقات کی زکواة کہیں تو چند منٹ 24گھنٹے کی زکواة ہیں کبہ رخ کھرے ہوں اور جی میں آئے کہ یہ زمین مطاف ہے تو اس میں تھوڑا سا حج بھی آگیا نماز کے دوران کچھ کھا پی نہیں سکتے اس لئے اس میں کچھ کچھ روزہ بھی شامل ہے کو ئی لہو و لعب والی بات نہیں کر سکتے اس لئے اس میں تھورا سا اعتکاف بھی آگیا بس یوں سمجھیں جس محبوب حقیقی کو دل دیا اس کے دربار میں کھڑاہوں ۔فرائض تو اٹل ہیں ضروری ہیں ”٫
”،جی ہاں نیکی کی خواہش اور کو شش ایمان کی شمع فروزاں کرتی ہے ”٫ میں نے اپنے تئیں خود کی دینداری ظاہری کی تو وہ مسکرائے اور کہا
”،میں جس مفلس گھرانے کا ذکر کر رہا ہوں اس کے کام آئیں تو یہ نیکی نہیں ”٫
میں گھبراکر چونک اُٹھا
”،تو پھر کیا ہے ؟”٫
”،یہ نیکی سے کہیں اوپر کی بات ہے ہو سکتا ہے ایسی ہی کسی چھوٹی سی کو شش پر خالق کو پیار آجائے تو وہ اپنا بنا لے کہ یہ گھرانہ Sub Human حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔میر اکام تو عرض کرنا ہے کسی پر فرض کرنا نہیں ہے اشرف المخلوقات ہر کر بھی جو حشرات الارض کی طرح زندگی گذار رہیں جن کی حیثیت نالی میں رینگنے والے کبثریا کیڑے سے زیادہ نہیں ۔ایسے لوگوں کی طرف دھیان تو دنیا ہو گا ورنہ محبت کے جتنے بھی دعوے کر لیں پوری نئیں پوے گی (پوری نہیں پڑے گی )
اسی پو ری دی بجائے دوری پا بیٹھے آں ( ہم دور ہو رہے ہیں )
وہ کہتا ہے میں قریب ہو ںہمیں غریب ہو نے کی فکر ہے
”،ہاں برادرِ عزیز کھرب پتی بندہ بھی اس بات پر پریشان رہتا ہے کہ کہیں میرے بچوں کے بچے غریب نا ہو جائیں ”٫
اس پر وہ بولے
”،جس کے پاس اللہ ہے وہی پاس ہو گا جس کے ساتھ وہ نہیں تو وہی بندہ اصلی غریب ہے باقی تو نقلی غریب ہیں رزق کی فکر نا کریں رزاق کی کریں ”٫
میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا اف میرے مو لیٰ بارش بہت تیز ہو چکی تھی ۔بھیگتے بھاگتے لوگ پناہ گاہ کی تلاش میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے ۔آتی جاتی گاڑیوں کی ہیڈ لائیٹس میں بارش کی متوازی بوندیں گرتی نظر آرہی تھیں ۔میں نے کہا
”،یہ جو پُر نور اور روشن آنکھیں ہیں یہ دور تک اور دیر دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر ان ہیڈ لائٹس کو استعمال کر کے اپنے اندر کے اندھیروں کی کھوج کیوں نہیں کرتے ۔دل پر یہ لائٹس فوکس کریں دل سے مال کی روپے پیسے کی محبت نکالنے کی کو شش کریں تو اُس غریب بڑھیا کی مدد ہو سکتی ہے یا اللہ اپنی مخلوق پر رحم کر (میں نے پھر زیر لب کہا )
میرے صاحب دل دوست نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو پریشانی کے عالم میں بولے
”،یا اللہ تو کرم کر کہیں ایسا نا ہو کہ اُس مفلس بڑھیا کی صبح لاش ہی ملے ”٫
یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔اسی اثناء میں اُنکی اہلیہ کا فون آگیا ۔کہہ رہی تھیں میری دوائی لے کر آئیں ۔وہ جواب میں کہہ رہے تھے ۔
”،میں بھلیا نئیں بس رُلیا واں (میں بھو لا نہیں خجل خوار ہو رہا ہو ں ”٫)
پھر مجھے کہنے لگے ”،بھائی جی رپلیا واں تے کھُلیا واں ”(٫خجل خوار ہوا ہوں تو خود پر کھلا ہوں)
ہاں رلنے میں ہی لذت ہے ۔مالک کے لئے اس کے پیار میں نصیبوں والے ہی رُلتے ہیں ہر مدعی ّ کے واسطے یہ تمغے کہاں میسرّ ہو تے ہیں ”٫
سوچ رہا تھا کہ یہ کام تو میرا تھا میرے محلے کا تھا مگر میرا صاحب ِ دل صاحبِ حال دوست بازی لے گیا سبقت کسی کسی کو ملتی ہے ہر کسی کو نہیں
عرض یہی ہے کہ شہرت عورت دولت اور نام ونمود کو خود پر فرض نا کریں انھیں ضرورت کے درجے پر رکھیں جائز اور حلال طریقے سے لے لیں انھیں مقصدِحیا ت نا بنائیں عرض یہ ہے کہ ہادی بر حق ۖ نے محبت سکھائی نفرت نہیں کو ئی مسجد کسی فرقے کی ہے تو کو ئی کسی اور کی ہے مساجد لللہ والی بات ہی کسی کو یاد نہیں کو ئی مسجدشیخاں والی ہے تو کو ئی مغلاں والی کو ئی کسی برادری کی ہے تو کو ئی کسی کی ہے نبیۖ والی مسجد کیوں تعمیر نا ہو سکی عرض ہے کہ نجران کے عیسائی پادریوں کا وفد جب سرکارِ دوعالم ۖ کی خدمت اقد س میں پہنچا تو صحابہ کرام کو فرمایا گیا ان کی تواضع میں کو ئی کمی نا ہو چمڑ ے کا خیمہ مسجد نبوی میں نصب کیا گیا جو صحرا کی تپتی گرم ریتلی آب و ہوا میںA/C کی طرح اندر سے ٹھنڈا رہتا تھا یعنی یہ اُس زمانے کے لحاظ سے ایک فایئو اسٹار قسم کی رہائش تھی ۔صحابہ کرام نے عرض کیا عیسائی پادری مسجد نبویۖ کے صحن میں اپنی عبادت کرنا چاہتے ہیں تو رحمت ِ دوعالم نے بخوشی اس کی اجازت مرخمت فرمائی جبکہ اس کے کہیں بر عکس یہ فرض کر لیا گیا کہ کسی دوسرے مسلک کا مسلمان کسی اور مسجد میں نماز پڑھ لے تو اتنے حصے کو نا صرف پاک کرنے کے لئے دھویا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اتنا حصہ کھود کر دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے
عرض یہ کرنا ہے کہ برداشت اور تحمل آوٹ آف اسٹاک ہو چکا ہے خصوصََا علما ء کرام اور دینی حلقوں میں تو ذرہّ برابر تحملّ نہیں ذرا سی بات پر فروعات پر برے برے جھگڑے شروع ہو جاتے جبکہ دین دار لوگوں کو انہی حلقوں میں غصہ پر قابو پانے کے بارے میں بتانا تھا ۔تو مندر نا گرائیں اپنے اندر کا بت گرائیں ۔دولت شہرت عورت تو پرائی ہیں ان کی طرف ہر کسی کا دھیان ہے دیندار طبقوں کا بھی لبر لز کا بھی اپنی طرف کب دھیئان ہو گا یہ سب کچھ تو دوسرا ہے جس کا سرا ہی کو ئی نہیں اُس ذات سے کیوں پیار نہیں کرتے جس کے ہاں دوئی ہے ہی نہیں ۔آج کل تو ہر کسی کا دھیان دوسروں کی کی طرف ہے اپنی راہیں آپ کیوں پیدا نہیں کرتے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی کو پانے کی فکر کیوں نہیں ۔قدرت نے اپنے انعامات کی اجرت محنت پر رکھی ہے پھل بھی محنت کرنے والے ہی کو نصیب میں ہو گا عموماََ محنت نہیں کرتے مگر پھل کھانے کے لئے تیار رہتے ہیں
لوگ صرف کردار سے متاثر ہو تے ہیں ا جو عرض کر رہا ہوں وہ فرض بھی ہے حضرت ابراھیم بن ادھم کمال کے اللہ والے تھے (یوں تو جس کو بھی اللہ کا تعلق نصیب ہوا وہ صا حبِ کمال بنا صاحبِ جمال بنا صاحبِ حال بنا ) فرماتے
”،اپنے پیٹ کو حرام کے لقمے سے اور دل کو دنیا کی محبت سے بچا کر رکھو ”٫
اک مثالی کردار کی تعمیر بس انہی دو باتوں ہی میں مضمر ہے الحمدُللہ ارد گرد سب صاحبِ ایمان ہیں جس کے دل میں روشنی کی محبت کی اور محبوب ِ حقیقی کے ملن کی ہلکی سی بھی خواہش ہے وہ اللہ کو پانا چاہتا ہے ہر چاہنے والے پر فرض ہے کہ اپنے رب کو جانے پھر مانے پھر اسے اپنا بنانے کے لئے اپنا اندر بنائے جب عرض اور فرض مل جائیں گے اللہ جل شانہ تو اک پل میں آنکھ کی پلکوں پر لرزاں اک آنسو میں یتیم کے سر پر اک لحظہ ہاتھ رکھنے سے صلہ رحمی سے بھوکے کو کھانا کھلانا سے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک سے اُسی دن اُسی وقت آن ملیں گے ۔آزما کر دیکھ لیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں