124

گرم آنڈے

یہ دو لفظی جملہ سب نے ہی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پہ سن رکھا ہو گا کوئی اسے سن کے بے دھیانی سے آگے گزر جاتا ہو گا کوی ویسے ہی منہ بنا کے جھٹک دیتا ہو گا شاید کوئی رحم دل ترس کھا کے نہ چاہتے ہوئے ایک آدھا انڈا خرید بھی لیتا ہوشدید سردی میں پکنک پوائنٹس پہ نکلی ہوئی ٹھٹھری ہوی فیملیز شاید اپنی سردی اور بھوک مٹانے کے لیے زیادہ انڈے بھی خرید لیتے ہوں لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے پیٹ کی آگ دنیا میں جانداروں کو درپیش بہت بڑی آگ ہے گو رب ہی ذمہ دار ہے ہر جاندار کو رزق کی فراہمی کا مگر پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے جتن میں ہی دنیا جنگ و جدل میں مصروف ہے انسان نے اپنا مقام اور وقار گرا لیا آپا دھاپی نفسا نفسی زیادہ اور زیادہ کی خواہش نے انسان کو حیوان سے بھی کمتر کر دیا پرندوں کو شاید انسانوں سے زیادہ رب پہ بھروسہ ہے علی الصبح بیداری رب کی حمد و ثنا اور پھر اونچی پروان کے ساتھ ساتھ رزق کی تلاش جھنڈ در جھنڈ غول در غول قافلہ در قافلہ اگر کہیں دانہ دنکا. خوراک دکھائی دے بھی تو بڑے تحمل اور تسلی سے حفاظتی تدابیر کے ساتھ جھک کے خوراک اٹھاتے ہیں آواز دے کے اپنے ہمجولیوں کو بھی دعوت دیتے ہیں صرف بڑے پرندے ہی کھانے پہ اپنے دانت تیز نہیں کرتے چھوٹوں کو بھی موقع دیتے ہیں یہ وہ مشاہدہ ہے جو روزانہ میں پرندوں کو کھانا ڈال کے کرتی ہوں بڑے نظم و ضبط اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر یہ پرندے اپنی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں اور مجھے ایک عجب طرح کے سوگ میں مبتلا کر جاتے ہیں انسان اس ہنر میں بھی پرندوں سے مات کھا گیا پرندے مل بانٹ کے کھا رہے اور انسان کے پیٹ کا جھنم بھرنے میں ہی نہیں آ رہابنگلے۔محل چھوٹی گاڑیوں سے بڑی گاڑیاں اور اب تو ٹرک کے سایز کی گاڑیاں ہیں جنہیں چلانے والے اپنے آپ کو انسان سے اوپر کے درجے کا بشر مانتے ہیں اور رب کی زمین پہ خواہ مخواہ ہی الٹے سیدھے ہو کر اکڑ اکڑ کے چلتے ہیں انھیں ہمارے آپ جیسے عام لوگ دکھائی نہیں دیتے تو یہ معصوم آنڈے بیچنے والے کیا
دکھائی دیں گیاور کبھی دکھائی دے بھی گے تو یہ برانڈ خرید کے لاکھوں اڑانے والی عوام آنڈے والے مظلوموں سے ٹکے ٹکے کا حساب کتاب کرتے ہیں تو فرش پہ بیٹھے ہوئے مالک کو بھی ایک پل کے لیے تو احساس ہوتا ہو گا کہ کیوں آدم کی تخلیق کی کیوں مٹی کے پتلے پہ اسقدر مان کیا کہ فرشتوں کی بھی نہ مانی جو کہتے ہی رہ گیے کہ ہم ہیں عبادت کے لئے درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کوورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاںانسان کے دل سے جب انسان کا درد ہی ختم ہو گیا تو پیچھے مٹی کا بت ہی رہ گیا اور آج کے تیز رفتار اور نفسا نفسی کے زمانے میں بت ہی بت ہیںفرشتوں سے بڑھ کے ہے انسان ہونامگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ بات آنڈے
بیچنے والی مظلوم عوام کی ہو رہی تھی ان میں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے لڑکے آٹھ سے بارہ سال کے یا بہت ہی ضعیف بوڑھے اور کبھی کبھار کوئی بڑھیا بھی دکھائی دے جاتی ہے دھند سردی اور کانپتے ہاتھوں نیلے ہونٹوں اور ٹھٹھرتے وجود کے ساتھ پیٹ کی آگ کو حلال طریقے سے بجھانے کا عزم بند کمروں میں ہیٹروں کے سامنے نوکروں کی فوج پہ حکم چلاتی ہوی عوام کیا جانے کہ بھوکے پیٹ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے پورے کنبے کے لیے روٹی کمانا کتنی اذیت ناک مشقت ہے جس تن لاگے وہی جانے ہم کو احساس کی بیماری ہے ا ور فیشن ہے بے حسی کا حضوربھوکے مرتے گیے دہقان کے بالبول میرا ہے یا کہ تیرا قصورکسی دانا کا قول ہے کہ اگر ہر شخص غریب کو ایک ایک دھاگہ دے دے تو غریب کا کرتا تیار ہو جائے گا مگر حیف ہم انسانوں پہ ہم غریب کو ایک دھاگہ دینے کے بھی روادار نہیںاسلام میں زکو اسی معاشی ناہمواری کو دور کرنے کے لیے شامل کی گئی ارکان اسلام جو مذہب اسلام کی بنیاد ہیںتوحید،نماز،روزہ،حج،زکولیکن ہم نے مذہب کو بس قرآن پاک کے غلاف میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دیاآیے ان چھوٹے چھوٹے ٹھیلے والوں اور سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے نیلے ہونٹوں اور کانپتی انگلیوں والے گرم آنڈوں کی صدایں لگاتے ذی روحوں سے بغیر جوڑ توڑ کے آنڈے خریدنا شروع کر دیں تو بہت سے بھوکے پیٹ احسن طریقے سے سیر ہو جایں گے میری یادوں کے خزینے میں یہ گرم آنڈے والے یادگار پاکستان شاہی مسجد انارکلی فور ٹریس سٹیڈیم لبرٹی چوک عسکری الیون جی ون مارکیٹ بحیرہ ٹاون غرض لاہور کا چپہ چپہ میرے بچے اور گرم آنڈے والے ساتھ ساتھ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں