89

ہندو فسطائیت کا مکروہ چہرہ لوجہاد

پچھلے دنوں معروف بھارتی اداکارہ راکھی ساونت نے اسلام قبول کرتے ہوئے ایک مسلم نوجوان عادل خان درانی سے شادی کر لی ۔ اور اپنا نیا نام ” فاطمہ ” رکھا ۔ میڈیا میں شادی کی خبر وائرل ہوتے ہی پورے بھارت میں متعصب لابی نے طوفان بدتمیزی برپا کر کے ان کی شادی کو ” لو جہاد” قرار دے دیا ۔ بھارت میں اسلام و مسلمانوں سے امتیازی سلوک و پراپیگنڈہ کوئی نئی بات نہیں ۔ اس پراپیگنڈہ نے اس وقت بدترین عملی شکل اختیار کی جب بھارت میں گجرات کے قصائی نریندر مودی نے مسند اقتدار سنبھالا ۔ جن کی پالیسیوں کا بنیادی محور اسلام و مسلم دشمنی پر مبنی تھا ۔ مسلمانوں کی جان ومال ،عزت وآبرو اور عبادت خانوں کونشانہ ستم بنانا روز کا معمول بن گیا ۔جن میں ایک” اسلامی نکاح” جسے وہ خوف کے مارے” لو جہاد” کا نام دیتے ہیں ۔Love Jihad دراصل ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کے انتہا پسند حامیوں کا ایک فاشسٹ نظریہ ہے۔جس کو بنیاد بنا کر وہ مسلمانوں کے دینی فریضہ ”اسلامی نکاح” کے خلاف شرانگیز زہریلی مہم چلا رہے ہیں ۔
اور الزام لگایا جاتاہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت میں پھنسا کر زبردستی دھرم تبدیل کروا کر ان سے شادی کر لیتے ہیں ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پورے بھارت سے جبراََ دھرم تبدیل کروانے کا ابھی تک کوئی ایک بھی ثبوت نہیں ملا۔ درحقیقت Love Jihad کی اصطلاح متعصب ہندوئوں کی طرف سے” اسلامی نکاح” کو بدنام کرنے کی ایک شیطانی سازش ہے ۔ تمام تر تحقیق کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ” لو جہاد” مشرک ہندوئوں کے خوف کی عکاسی کرتا ہے ۔ یعنی لوجہاد درحقیقت اسلام فوبیا کا ہی ایک تسلسل ہے۔ دجالی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دین اسلام ( قرآن وسنت )کے خلاف چلائی جانے والی مہم Islamic Terrorism اور مشرک ہندوئوں کی جانب سے اسلامی نکاح کے خلاف چلائی جانے والی مہم Love Jihad میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ دونوں اسلام دشمن قوتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ( مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودی اورمشرکین ہیں، سورة المائدہ ) ۔
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے Live in Relationships جس کے تحت قانونی طور پردو بالغ افراد مرود عور ت بغیر شادی کے اپنی مرضی سے کہیں بھی سکونت اختیار کر سکتے ہیں۔ بعد میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی پر مبنی قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک ہی صنف کے دو بالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق جرم نہیں ہے ۔بھارت میں مرد وخواتین اور خواجہ سرا باہمی رضا مندی سے اپنے ہم جنس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہوں گے۔ بھارتی آئین کی ان دو شقوں نے معاشرے کی اخلاقی اقدار کی رہی سہی دھجیاں بھی اڑا کر رکھ دی۔ جس سے بھارتی معاشرہ کسی مادر پدر آزاد حیوانیت کا منظر پیش کرنے لگا ہے ۔
مشرک درندوں کے لیے چلتی بسوں، گاڑیوںاور ٹرینوں میں لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دریاں کرنا روز کا معمول بن چکی ہیں ۔ جہاں نوے سالہ عورت حتیٰ کہ جانورں تک کو بھی نہیں بخشا جارہا ۔ تب ہندو لڑکیاں اپنی عزت و آبرو کو اسلام کی آغوش میں محفوظ تصور کرنے لگیں ۔ آئے روز درجنوں ہندو لڑکیاںمسنون نکاح کے لیے مسلمان گھرانوں کی طرف رجوع کر نے لگیں ۔ جس نے ہندو دھرم کے مذہبی پنڈتوں و سیاسی نیتائوں کی راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ۔ جو اکثر و بیشتر بحث و مباحثہ کے دوران دہائی دیتے نظر آتے ہیںکہ اگر انہوں نے ہندو لڑکیوں کو مسلمان نوجوانوں سے شادی سے نہ روکا تو اگلے بیس سالوں میں نصف ہندو لڑکیاں مسلمان ہو جائیں گی ۔جو مسلمان بچوں کو جنم دیں گی ۔ کافر ہندو” اسلامی نکاح”، جسے وہ پراپیگنڈہ کے طور پر Love Jihad کہتے ہیں سے کتنے خوف زدہ ہوچکے ہیں ،کہ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے ۔ بھارت کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ اور مودی کے متوقع جانشین آدتیہ ناتھ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بضض اسلام پھونکتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان ” نکاح” کر کے ہماری ایک ہندو لڑکی لے جائیں گے ، ہم مسلمانوں کی سو لڑکیاں اٹھا لیں گے ۔ انتہا پسندہندو اپنی لڑکیوں کو اسلام کی طرف راغب ہونے سے روکنے میں یکسر بے بس ہو چکے ہیں ۔
بہت کم مسلمانوں کو اس رونگٹے کھڑے کر دینے والی حقیقت کا علم ہے کہ” لو جہاد” کی آڑ میں گذشتہ کئی سالوں سے ”شدھی کرن ”کا انتہائی بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے، تاکہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کا رخ بھارت کی طرف نہ ہو ۔ جس کے تحت پورے بھارت میں نوجوان مسلمان لڑکیوں کو اغوا کر کے دھمکیوں اور پیسے کا لالچ دے کر ، بدترین تشدد کانشانہ بنا کر مشرک ہندوئوں کے ساتھ شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے ۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق8 لاکھ مسلمان لڑکیاں مشرک ہندوئوں کے گھر جا چکی ہیں۔
یہ المناک صورت حال جہاں ایک جانب امت مسلمہ کے دینی ، مذہبی حلقوں اور نوجوانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے تو دوسری جانب امن کی آشا کا راگ الاپنے اور کشمیر ایشو پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی ہے ۔انسانیت دشمن ہندو معاشرہ غلاظت کا ایک ایسا ڈھیر بن چکا ہے ۔ جہاں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں رہی ۔صاف نظر آ رہا ہے کہ ہندو فسطائیت سے پکنے والے لاوے سے ایک ایسا آتش فشان پھٹنے کے قریب ہے جو غزوہ ہند کی صورت میں نمودار ہو گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں