81

شادیوں پر اسلام کی تضحیک

شدید جاڑے کے موسم میں کھانسی نہ بھی ہو تو گمان غالب ہے کہ آئس کریم کھانے سے کھانسی ہو سکتی ہے۔اگر کسی کو کھانسی ہو چکی ہو تو بد پرہیزی میں بندہ آئس کریم کھائے تو کھانسی”پھانسی” میں بدل جاتی ہے۔آئس کریم گلے کے لئے رسی کے مانند ثابت ہوسکتی ہے۔فطری اورطبعی اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہونے والی اشیا سے اجتناب نہ کرنا کسی نہ کسی بیماری کا موجب بن سکتا ہے۔معالج کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر اور پرہیز کے الٹ چل کر پریشانی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے.پرہیز صرف جسمانی بیماری تک ہی محدود نہیں اس کے مفہوم میں وسعت ہے۔ایمانی اور روحانی حوالہ سے بیماریاں اور پرہیز بھی ہوتے ہیں۔آج ہم بحیثیت مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات کو نہ صرف چھوڑ کر بلکہ اس کے خلاف چل کر بدپرہیزی کرنے والے مریض کی طرح ذلیل ہورہے ہیں۔دوائی لیتے بھی ہیں تو بد پرہیزی شِفا کو ہمارے قریب نہیں پھٹکنے دیدتی۔ہم کئی روحانی و ایمانی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ہم اپنی روزمرہ کی پوری زندگی پر نظر ڈالیں تو تقریبا ہرکام میں قرآن و سنت کی مخالفت نظرآتی ہے۔افسوس یہ ہے کہ ہم نے تعلیماتِ اسلام سے اپنی دوری کو مجبوری بنا لیاہے۔یہ دوری اب رسم و رواج اور جِدت پسندی کا روپ دھار چکی ہے۔کئی ایس مثالیں ہیں جو درحقیقت ہماری ہٹ دھرمی،بے وقوفی اور جہالت کا نہ صرف ثبوت دیتی ہیں،بلکہ ہمیں قرآن وحدیث کی تضحیک کا مرتکب بھی بناتی ہیں۔مذہب اسلام جوکہ عورت کے لئے پردہ کا شدید حکم دیتا ہے۔اورخاص کر کسی نامحرم انسان کے بارے تو یہ اصول مزید شدت پکڑ لیتا ہے،مگر بحیثیت مسلمان ہماری شادیوں کے موقع پراکثر اس ممانعت کی مخالفت کی جاتی ہے۔جیسے کہ دلہن جو مکمل طور پرسج سنور چکی ہوتی ہے،جس کے ایک عام سے چہرہ کو میک اپ کی فنکاری تیاری سے بدل رکھ دیا جاتا ہے،گلی محلہ اور عزیز و اقارب میں جو پہلے توجہ کا مرکز نہیں ہوتی مگر بیوٹی پارلر کی فنکاری اس کے خال و خد کو نگاہوں کا مرکز بنا دیتی ہے۔مختصر یہ کہ قابلِ دِید بنا دینے کے تمام طریقے اور حربے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔بظاہر حسن و زیبائش کا یہ سارا اہتمام ممکنہ شوہر کے لئے کیا گیا ہوتا ہے۔لیکن شرعی حاکم بننے والے شخص سے پہلے ہی ایک اجنبی مووی میکر اس سجی سنوری دلہن کے انگ انگ کو فوکس کر لیتا ہے۔دلہن کے لباس میں چھپی ہوئی”عورت” کو کیمرے کے نشتر سے تراش خراش کر لباس سے دریافت کرلیا جاتا
ہے۔والدین اور بھائی بہن گویا اس کو نکاح کا کوئی ناقابل تردید حصہ سمجھ کر اندھے بہرے ہو کر پھر رہے ہوتے ہیں۔اور یہ سارا عمل درحقیقت کسی نہ کسی حدیث یا قرآنی آئیت کی مخالفت میں ترویج پارہا ہوتا ہے۔چند گھنٹوں کے بعد الوداعی کے لمحات میں اسی دلہن کو خاندان کی چند عورتیں پرنم ہوکر سسکیوں اور آہوں میں قرآن پاک کے سایہ میں الوداع کرنے لگتی ہیں۔اور یہ دلہن اِن چند مخصوص لمحات میں نہائیت ہی آہستہ اور سنبھل سنبھل کر چل رہی ہوتی ہے،جیسے کسی جراح نے پرہیز بتایا ہو۔کاش یہ دو گھڑی کا تحمل و تدبر، پھونک پھونک کر قدم دھرنے اور اٹھانے کا عمل روز مرہ زندگی میں بھی اختیار کیا جا سکے۔اور اسے مستقبل میں بھی تاحیات اپنایا جا سکے۔تو بیڑا پار ہوجائے گا،مگر یہاں تو اکثر بیڑا غرق ہوجاتاہے۔کیونکہ ایسے تمام اچھے اور صالح اعمال وقتی طور پر کئے جاتے ہیں۔دکھ ہوتا ہے اس وقتی سے عمل پر کہ کچھ ہی دیر پہلے جس قرآن کی کھلے عام عملی طورپرمخالفت کی گئی ہوتی ہے،اب اس کے نیچے سے دلہن کو
گزارنے کا کیا مقصد،کیا یہ دین اور قرآن سے کھلا مذاق نہیں،شادی پر فوٹو سیشن ہوجانے کے بعد یہی دلہن زندگی بھر ایک بھی قدم سوچ سمجھ کر یا دِھیرے سے نہیں رکھتی اٹھاتی۔جس نئی زندگی کا آغاز ہی قرآن و حدیث کی مخالفت اور نبی مکرم کی ناراضی سے کیا جائے اس میں رحمتیں اور برکتیں کیسے اورکہاں سے آجائیں گی۔اس کی پاداش میں شادیوں کے بعد بربادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو پھر جہالت کا دوسرا ثبوت اس طرح دیا جاتا ہے کہ اللہ اور رسول کے قرب سے احتیاط برتتے ہوئے ہم تعویذ لکھنے والے باباوں اور پِیروں کے لئے بھاری نذرانے پیش کرنے لگتے ہیں۔پریشانی کے ان حالات میں بھی ہم خود ربِ کائنات سے رجوع نہیں کرتے،اللہ پاک کے مقرب بندوں سے دعا کروانا بھی اچھا عمل سہی،مگر خود بھی تو جھک کر گردن میں رب پاک کی ناراضی کے طوق سے آزاد ہونا چاہئیے۔اقبالِ جرم کرتے ہوئے،ندامت کے گرم گرم آنسووں سے اللہ پاک کی ناراضی کے آہنی طوق کو تو پانی کرنا چاہئیے۔صرف شادی کے رسم و رواج پر ہی غور کریں تو آدھے سے زیادہ رسمیں اور طریقے اسلام کے منافی نظر آتے ہیں۔درحقیقت یہی جہالت”ذلالت” کو جنم دیتی ہے۔شادی سے جڑے ہوئے اسلام کے منافی رسم و رواج ہمارے معاشرہ میں اس قدر وجود پا گئے ہیں کہ بظاہر یہ اسلامی اطوار و اقدار کے برابر نظر آنے لگے ہیں۔شاید مستقل میں ہماری جِدت پسند نسلیں اس کو اسلام کا حصہ تصور کرنے لگیں۔رسول عربی کے خون پسینہ سے عام کئے گئے دِینِ لاریب کو اس ممکنہ تباہی سے بچانا بہت ضروری ہے۔شادیوں میں گھسی ہوئی ایسی تمام رسموں کو باہر نکال پھینکنے کی ضرورت ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ دِین کی اشاعت و ترویج کا دعوی کرنے والے لوگوں کے گھرانے بھی اس رنگِ بے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔آو سارے مل کر رسولِ عربی کی محنت کو اکارت ہونے سے بچانے کے لئے جانوں کی نہ سہی خواہشات کی قربانی تو پیش کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں