79

متوازن خاندان ،خوشحال خاندان

بہت سی تقریبات میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جہاں جا کے بہت کچھ نیا اور اچھے سے اچھا سیکھنے کا موقع ملتا ہے لیکن کبھی کبھی قسمت ایسی محافل میں بھی لے جاتی ہیں جہاں اول بوریت اور آخر تشنگی رہ جاتی ہے ۔ایسی ہی ایک تقریب میں چند دن پہلے گوجرانوالہ چیمبر کے خوبصورت ہال میں شرکت کا موقع ملا ۔ہمارے میزبان نے ہمارے کسی مہربان سے ہمارا نمبر لیا اور فون کیا کہ آپ نے اس تقریب میں ضرور شرکت کرنی ہوگی ۔تقریب کا عنوان تھا متوازن خاندان ،خوشحال خاندان۔یہ عنوان مجھے بہت پسند ہے اور اس پہ میں نوائے وقت میں اور کچھ دوسرے اخبارات میں تسلسل سے اپنے تجزیے لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہتاہوں۔میرا خیال ہے کہ پاکستان کے بہت سے مسائل کی وجہ ملکی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے ایک طرف ملکی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے تو ساتھ ہی سرمایہ دار اور کاروباری لوگ ملک کی سونا اُگلتی زمینوں کو ہاوسسنگ سوسائٹیز کے نام پر ہڑپ کر رہے ہیں ۔یہ المیہ ہے کہ جو ملک زرعی ملک کی شناخت رکھتا ہے اُ س ملک میں پچھلے کئی سالوں سے گندم،چینی ،دالیں اور دوسری کئی ضروریات زندگی دوسرے ممالک سے منگوائی جارہی ہیں۔خیر اس عنوان پہ مجھ سمیت بہت سے لکھاری لکھ رہے ہیں اب یہ پڑھنے والوں اور پالیسیاں بنانے والوں پر ہے کہ وہ کب خواب غفلت سے جاگتے ہیں اور کب ملک میں چھوٹا خاندان کے ساتھ چھوٹا گھر کو عملی شکل دینے کے لیے کوئی قابل ِ عمل منصوبے شروع کرتے ہیں۔ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر عدنان اشرف بٹ کی طرف سے جب دعوت نامہ ملا تو اُس پہ 12,30ہال میں بیٹھے لوگوں کی حاضری یا رجسٹریشن ،12.50پہ تلاوت12.55پہ نعت1 بجے بڑھتی آبادی کے معاشی اور معاشرتی اثرات پہ عدنان اشرف ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر کی طرف سوال و جواب پھر 1.25 صدر چیمبر کا اظہار خیال اور اختتمامی کلمات شبیر بٹ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل نے ادا کرنے تھے۔آخر میں دو بجے لنچ کا اہتمام کیا جانا تھا۔
ہم اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور کئی کام چھوڑ کے وقت مقررہ پہ سانس پھولے جب ہال پہنچے تو دیکھا وہاں صرف شہباز جٹ صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔یا دو میزبان۔چہرہ شناسی کے بعد مجھے بیٹھنے کو کہا گیا اور پھر باقی صحافیوں کا انتظار شروع ہوا۔ہم نے پوچھا سننے والے اور کون لوگ آرہے ہیں توعدنان بٹ صاحب نے فرمایا الیکٹرانک میڈیا کے لوگ اور کچھ کالم نگار۔خیر ٹھیک ایک گھنٹہ بعد حاضرین کے بار بار اصرار پہ تقریب شروع ہوئی توقاری شاکر صاحب نے خوبصورت لب و لہجے میں تلاوت کرکے دلوں کو خوب راحت پہنچائی۔ حیران کن طور پر تلاوت کے بعد نعت پڑھنے کے لیے کسی کو نہ کہا گیا۔پھر ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر
آفیسر کی طرف اعداد و شمار کے لیے ٹی وی سکرین پہ بریفینگ شروع ہوئی ۔جو انتہائی بور رہی۔بہت سے لوگ اس دوران باقاعدہ اُونگتے نظر آئے۔میرے خیال میں صحافیوں اور لکھاریوں کو ملکی یا غیر ملکی اعداد و شمار کا اتنی تفصیل سے بتانا وقت کا ضیاع ہے ۔اگر کوئی واقعی صحافی یا لکھاری ہے تو اسے ریاستی مسائل اور دنیا سے تقابلی جائزوں سے بخوبی آگائی ہونی چاہے ۔بریفینگ کے نام پر ہمارے میزبان نے زیادہ وقت یہ ہی بتانے کی کوشش میں لگے رہے کہ بنگلا دیش میں کیا ہے اور کیسے ہے یوں سمجھئیے کہ گویا کہہ رہے ہوں جیسے بنگلہ دیش میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں ۔یہ سچ ہے کہ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگالیوں نے اپنیآبادی کو بڑی کامیابی سے کنٹرول کیا ہے ۔لیکن اس آبادی کنٹرول میں وہاں کی حکومتوں، انتظامیہ ،علما، اساتذہ اور پھر این جی اوز کا بہت بڑا ہاتھ بھی شامل ہے جو گھر گھر جا کے لوگوں کو آبادی میںکمی لانے کے طریقے سمجھاتے رہے۔خیر یہ سلسلہ اختتام ہوا اور اُمید تھی کہ اب سوال و جواب کا دور چلے گا لیکن میزبان نے ڈاکٹر جاوید اکرم کو گفتگو کے لیے کہا، ڈاکٹر جاوید اکرم واقعی ایک سَچے سُچے پنجابی ہیں ۔انہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے بھی پنجابی کلام پڑھنا مناسب سمجھا اور کلام اس انداز سے پڑھا کہ سارا ہال جاگ گیا اور ہر کہیں سے آواز آنے لگی ہم آبادی کنٹرول کرنے کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا پنجاب میں ایک ہی ایسا بہادر دلیر اور دانا بندہ پیدا ہوا ہے جس نے دلی سے لے افغانستان تک حکومت کی تھی اس کا نام مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا۔اس سے پہلے ہمیشہ حملہ آور افغانستان کی طرف سے آیا کرتے تھے۔کہنے کا مطلب کہ بچا ایک بھی لائق ہو تو کیا کہنے۔ پھر ایک مولانا صاحب کو گفتگو کا موقع دے دیا گیا۔انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں آبادی کنٹرول میں رکھنے کے حوالے سے بیان کیا ۔اختتمامی کلمات کے لیے شبیر بٹ صاحب بڑے دبنگ انداز سے سرکاری موقف اور کامیاب زندگی کے لیے مناسب خاندان کی اہمیت بارے بہترین بات چیت کرتے رہے۔قرآن میں ہے کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو ڈھائی سال دودھ پلائیں ۔یہ اللہ کی حکمت ہے کہ اگر مائیں بچے کی پیددائش کے بعد ڈھائی سال تک بچے کو اپنا دودھ پلائیں گی تو اسے نہ صرف ماں بچے کی صحت بلکہ نئے آنے والے ننھے مہمان کو خاندان کی طرف سے بہت سا پیار اور توجہ بھی مل سکتی ہے۔پھر اس کے اگلے سال کسی دوسرے بچے کے لیے والدین اگر کوشش کریں تو بچو ںکی پیدائش میں وقفہ چار سال کے قریب ہو جائے گا ۔ماوں کی صحت اور بچے کی مناسب دیکھ بھال کے لیے یہ ایک بہترین ترتیب رکھی گئی ہے اب ضرورت ہے کہ انتظامیہ ،میڈیا ،اساتذہ اور مولوی صاحبان آسان لفظوں میں گاوں گاوں،گھر گھر یہ پیغام پہنچائیں کہ آبادی کنٹرول کرنا کیوں ضروری ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں بیوی آپس کے تعلق کو بھی جاری و ساری رکھیں اور بچو ں کی پیدائش میں وقفہ بھی بنا رہے۔اس سلسلے میں جہاں سکول و کالج میں نئی زندگی شروع کرنے والے بچوں سے بات کرنی چاہیے وہیں اُن بوڑھی دادیوں ،پھوپھیوں اورچاچیوں تائیوں سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے جو نئی دلہن سے پہلے مہینے ہی کسی خوشخبری کی اُمید لگا لیتی ہیں اور پھر دادیاں پوتوں کی جوڑیاں بنانے کے چکر میںبہو کو جلد اور مزید اولاد پیدا کرنے کے لیے اُکساتی رہی ہیں ۔یہ سلسلہ مسلسل چلنا چاہیے اور علما کرام کو اُمت بڑھانے والی حدیث کے ساتھ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بیان کی گئی احادیث اور قرآنی احکامات بارے بھی بتایا جانا چاہیے۔پاپولیشن آفیسر عدنان بٹ کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت ایک سو سے زیادہ علما کرام آبادی روکنے یاآبادی مناسب رکھنے کے لیے انتظامیہ کے پے رول پہ ہیں۔اس مسلئے پہ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ
کہ پاپولیشن آفیسر لکھاریوں،صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ مستقل رابطہ رکھیں تا کہ متعلقہ لوگوں تک پیغام بہتر طریقہ سے پہنچانے کا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔آخر میں چیمبر صدر نے لکھی ہوئی تقریر پڑھنی شروع کی اور تلفظ کی غلطیوں سے ہال کو جگانے میں بھر پور کامیاب رہے۔یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اتنے بڑے عہدے دار کوایسے اہم موضع پر دو منٹ بھی بات نہیں کرنی آتی۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جناب صدر چیمبر تھوڑی تیاری سے مناسب لفظوں کا چناو کرکے نہ صرف آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے بلکہ فیکڑیوں ،کارخانوں ،دکانوں اور دوسرے کاروبار سے جڑے لوگوں کے درمیاں اس پیغام کو پہنچانے کا ذمہ بھی لیتے۔گروپ فوٹو ہوا اور پھرکچھ خاص اور نامور لوگوں کو وی آئی پی کمرے میں اور ہم جیسے چندنامعلوم لکھاریوں کو وہیں ہال میں کھانے کے بند ڈبے پکڑا د ئیے گئے۔مجھے وزیر اعلی ہاوس ،گورنر ہاوس اور ایسی دوسری تقریبات میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے یہ کہیں نہیں ہوتا کہ میزبان تقریب کے بعد کچھ لوگوں کو وی آئی پی کمرے میں لے جائے اور کچھ کو وہیں بھول جائیں۔عثمان بزدار ہو شہباز شریف یا چوہدری پرویز الہی یہ سب کالمنگاروں کو جب بلاتے ہیں تو ان سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے کبھی ایک ہی سکول میں پڑھا کرتے تھے۔دانشور کو چائے،کھانے یا لفافے کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں مگر! عزت کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں