82

انسانوں کے روپ میں بھیڑئیے

بڑے بڑے واقعات اور حادثات و سانحات جب دھرتی پر ہوگزرتے ہیں تو اپنے پیچھے کچھ نقوش اور باقیات کو چھوڑ جاتے ہیں۔جو دیر تک اِن گزرے ہوئے حالات کی تلخ و شیریں یادوں کو انسان کے دل و دماغ میں اتارتیرہتے ہیں۔ایسے واقعات پریشانی یا نقصانات سے دو چار کردینے کے ساتھ ساتھ کئی دفینوں،رازوں اور حقیقتوں کو بھی متاثرہ انسانوں پرآشکارکرجاتے ہیں۔انسان جنہیں دیکھ کر یا محسوس کر کے حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔یوں بڑے پاکدامنوں اور اکڑ فووں کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔اب حالیہ سیلاب پر ہی بات کر لیتے ہیں،کہ جہاں سیلاب نے انسانیت سوز تباہی مچائی ہے وہاں اس مصیبت کے عالم میں اکثر ناعاقبت اندیش لوگوں کے منحوس چہروں سے نقاب بھی اتار دئیے ہیں۔انسانی روپ میں چھپے ہوئے بھیڑئیے لالچ و ہوس میں اندھے ہوکر اب سامنے آگئے ہیں۔سیلاب زدگان کی مدد کے لئیے پاکستان کے اندر باہر سے امداد آرہی ہے۔انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار بعض لوگ توگلی گلی پھر کر اِس عظیم عمل کو باخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ایک ایک شے کو اکٹھا کرکے سامان سے بھرے گئے ٹرکوں کو منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں یہ بھیڑیا صفت انسان بری طرح سے لوٹ لیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر کئی خبریں اور ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں کہ راستے میں ڈرائیورز اور سامان لے کر جانے والوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہیگاڑیوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔حتی کہ فائرنگ بھی کردی جاتی ہے۔سرکاری اداروں کو ایسے واقعات کے انسداد کے لئیے اپنی فورسز کو حرکت میں لانا چاہئیے۔اس طرح سے امدادی سامان کی ترسیل کا عمل بہت بری طرح متاثر ہوگا،اور امداد کے مستحق محرومی و مایوسی سے دوچار ہوکر مزید پریشان ہوں گے۔چند بے ضمیر لٹیروں کی ایسی بری حرکتوں کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارا شرمناک امیج جائے گا۔لوگ متاثرین تک امداد پہنچانے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔باالخصوص غیر ملکی لوگ بڑے منفی تاثرات لے کر جائیں گے۔لوگ ملک ملک سے جذبہ ایثار لئے امداد پہنچانے کے لئے آرہے ہیں۔ہمارے اپنے لوگ اپنے ہی بہن بھائیوں کی ضروریات کی اشیا چھین رہے ہیں۔حالانکہ ایسے پر مصائب اور نامساعد حالات سے توہمیں بہت کچھ سیکھنا چاہئے،ہماری سفاکیت میں کچھ تو کمی آنی چا ہئیے۔ایسے حالات تو شاید قدرت کی طرف سے رونما ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ انسان راہ راست پر
آجائیں۔ایسی بِگڑی اور معذوب صورت حال میں بھی نصیحت نہ پکڑنے والے انسان درحقیقت انسان نہیں،انسانیت کے نام پر دھبہ ہوتے ہیں،اور پہلے گزر چکی ان قوموں کے وحشی مزاج انسانوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے متعلق انبیا پر ہدائیت کے لئیے صحیفے اور آیات اتریں۔باالاخر ان کی ہٹ دھرمی کے نتیجہ میں عذابِ الہی نازل ہوا۔پانی میں گِھرے لوگوں”کا حصہ” لوٹنے والے لوگوں کا مزاج گویا کربلا کی فوجِ اشقیا سے ملتا ہے، سیلاب زدہ لوگوں کے لئیے بھیجے جانے والے سامان کو لوٹنے والے یہ لوگ لاشوں سے از راہِ شغل کفن لوٹنے والے لوگ محسوس ہوتے ہیں۔میدانِ کربلا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین کو بِلا جرم و خطا بھوکا پیاسا شہید کرکے بھی وہ درندہ صفت لوگ ظلم کرتے تھکے نہیں تھے۔امام عالی مقام کو شہید کرکے بعد میں ان کی لاش کو بھی لوٹا گیا۔جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ قیس بِن اشعث نے امام عالی مقام کے وجود پاک سے چادر لوٹی،بجدل بِن سلیم نے امام پاک کی قیمتی اور تبرکات انبیا میں شمار ہونے والی انگوٹھی کی خاطر نواسہ رسول کی انگشت مبارک ہی کاٹ دی اور مالک بِن بسر نے لختِ جگر بتول کے سر سے امامہ لوٹا۔ شکلیں بدل بدل کر برے کردار آج بھی اپنے انداز میں زمانہ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنے یزیدی ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔مختلف باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آج کل سیلاب زدگان کی امداد کا سامان لوٹنے والے مافیاز کے ایجنٹ لوگوں سے جمع شدہ سامان فروخت کرنے کے لئے رابطے کررہے ہیں۔ یعنی وہ افراد جنہوں نے پہلے امدادی قافلے لوٹے اور اب وہ لوگ اس سامان کو آدھی سے بھی کم قیمت میں فروخت کررہے ہیں۔امدادی قافلوں کو لوٹنے والے ان سفاک لوگوں کو اِس دور کے یذیدی نہ کہیں تو کیا کہیں۔سامان چھین کر اونے پونے میں فروخت کرنے والوں کی ایسی گھٹیا حرکات کی وجہ سے اچھی تنظیموں کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ان رضاکارانہ تنظیموں سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو مصیبت کی گھڑی میں لوگ ان کو ایک پائی پیسہ بھی مانگے نہیں دیں گے۔ افسوس ہم مسلمان ہوکر ایسے گھناونے کرتوت سرانجام دے رہے ہیں۔جو غیر
مسلم ہے امریکہ جسے ہم طرح طرح کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔اس کی سنٹرل فوجی کمانڈ نے”امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی( یو ایس ایڈ) کی معاونت سے پاکستان میں شدید سیلاب سے متاثرہ لوگوں اور آبادیوں کے لئے ہنگامی انسانی امداد کی فضائی ترسیل کا آغاز کردیا ہے۔ان ترسیلات میں ضروری سامان بشمول خوراک تقریبا بائیس لاکھ ڈالر مالیت کا سامان شامل ہے۔حالیہ سیلاب متاثرین کے لئیے امریکی مجموعی امداد تین کروڑ دس لاکھ ڈالر ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے کیا کررہے ہیں۔اس تباہی نے نقصان تو کیا ہے مگر بڑوں بڑوں کے پول کھول دئیے ہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ مصیبت کے وقت پر ہی اپنے اور پرائے بلکہ انسان اور حیوان کا پتہ چلتا ہے۔باہر کے ممالک سے لوگ یہاں آکر دورہ کر گئے ہیں لیکن ہمارے کچھ اپنوں کو ابھی بھی سیاست کا دورہ پڑا ہوا ہے۔متاثرین کا حال تک نہیں پوچھا۔دوسرے ممالک کی تجزیاتی رپورٹس بھی بتا رہی ہیں کہ پاکستان ایک بہت بڑے المیہ اور دھچکا سے دوچار ہوا ہے۔اس کے باوجود بھی ازسرِ نو آباد کاری کے لئے کوئی پلاننگ نظر نہیں آرہی۔دو ماہ تک تو سردی اتر آئے گی،لوگ کھلی سڑکوں اور ٹِیلوں پر کیسے گزارا کریں گے۔سوچتا ہوں کربناک حالات کی آغوش میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے عقل و شعور میں ہمارے”بڑوں”کی اول درجہ کی سفاکیت اور منافقت و فرعونیت کو لے کر جواں ہوں گے تو کل کلاں وجود پانے والے پاکستان کی سوچ،اندازِ فکر اور جذبات کیا ہوں گے۔پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے،سیاسی لوگوںکے”کالے کرتوتوں “سے ،ہمیں اب تدبر سے کام لینا چاہئیے، ہم اب تک کہاں کھڑے ہیں۔مستقبل میں وجود میں آنے والے پاکستان کی ذہنی تعمیر و تربیت کرنا بہت ضروری ہوچکا ہے،ہمارے موجودہ تمام سیاسی کردار اور حالات کے مناظر قومی تباہی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔خدارا سفاکیت،منافقت اور فرعونیت و یذیدیت کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا”کالا کرتوت”سرانجام نہ دیں۔آو مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے ایک محبِ وطن اور دردِ دل رکھنے والی زندہ ضمیر نسل کی تربیت کا کارِ عظیم سرانجام دیں۔اگر ہم میں سے ہر خاص وعام نے منہمک ہوکر دل جمعی سے نسلِ نو کی اخلاقی تعمیر کا کام سرانجام نہ دیا تو پھر مصیبت کے وقت میں کسی کا سہارا بننے کی بجائے اِسی طرح سامان لوٹنے والے لٹیرے اور ڈاکو ہی پیدا ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں