71

کتاب یا انسائکلوپیڈیا

آج میرا موضوع ایک انسائیکلو پیڈک کتاب ہے، جو ایک تکون کے گرد گھومتی ہے، اس تکون کی مرکزی شخصیت سابق وزیر قانون اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر ہیں۔دوسری شخصیت پنجاب یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سینئر استاد اور اس کتاب کے مرتب و مصنف ڈاکٹر وقار ملک ہیں اور تکون کی تیسری شخصیت علامہ عبدالستار عاصم کی ہے، جو خود کئی کتابوں کے مصنف اور کالم نگار ہونے کے علاوہ اس ضخیم انسائیکلو پیڈک کتاب کے ناشر ہیں۔ کتابوں کی عدم مقبولیت کے اس زمانے میں کسی ناشر کا تقریبا سات سو صفحوں کی اس کتاب کا چھاپنا اس کی علم دوستی اور کتاب دوستی کا مظہر ہے۔اس کتاب کو اگر میں نے انسائیکلو پیڈک قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سیاست معاشرت معیشت عالمی صورت حال عالمی اور قومی معاملات مختلف علمی اکابرکی تفصیلات غرض یہ کہ کون سا موضوع اور ایشو ایسا ہے جس سے اس کتاب میں بحث نہیں کی گئی ہے۔کتاب کے مطالعے سے ایس ایم ظفر کی شخصیت کا جو خاکہ ذہن میں بنتا ہے وہ ایک سیاسی اور عالمی مدبر کا ہے جس کا حافظہ معاصر علوم سے آراستہ جس کی نگاہ ہر اہم اور قابل ذکر مسئلے کا احاطہ کرتی اور جس کا دماغ ہر قسم کے الجھائو اور ابہام سے پاک ہے۔ایس ایم ظفر کی شخصیت کا جو امیج اس کتاب سے ابھر کر سامنے آتا ہے اس کا بڑا کریڈٹ کتاب کے مولف مرتب ڈاکٹر وقار ملک کو جاتا ہے جنہوں نے نہایت صبر آزما اور حیران کن مشقت سے اسے ترتیب دیا۔یہ کتاب اگر میری نگاہ میں انسائیکلو پیڈک ہے تو اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ آج سے تقریبا پچیس برس قبل وقار ملک نے ایس ایم ظفر سے علمی نشستوں کا سلسلہ شروع کیا۔وہ پابندی سے ظفر صاحب سے ملاقاتیں کرتے ان کی زندگی کے حالات و واقعات سے لے کر مختلف اہم مسائل و موضوعات پر انٹرویو کرتے اور پھر انہیں کسی اخبار یا رسالے میں چھپوا دیتے۔ تو کتاب کا یہ سارا مواد ان پچیس برسوں کی ملاقاتوں اور علمی نشستوں کا نچوڑ ہے۔وقار ملک نے لکھا ہے کہ جب انہوں نے ایس ایم ظفر صاحب سے اس کتاب کو شائع کرنے کا تذکرہ کیا تو وہ تیار نہ ہوئے۔ان کا اندیشہ یہ تھا کہ انٹرویوز جو کئے گئے ان پر سالہا سال کی گرد جم چکی ہے۔مسائل اور ایشوز ملک اور دنیا کے بدل چکے ہیں لہذا اس کتاب میں ان کے ظاہر کئے گئے خیالات بھی پرانے اور
ازکار رفتہ ہو چکے ہوں گے۔ڈاکٹر وقار ملک کو اس خیال سے اتفاق نہ تھا۔انہوں نے کتاب مرتب کی اور ایس ایم ظفر صاحب کے سامنے رکھ دی کہ اس میں جو انٹرویوز ازکار رفتہ ہو گئے ہیں بے شک آپ انہیں کتاب سے خارج کر دیں۔ظفر صاحب نے کتاب کو بہ غور دیکھا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور میں نے جو انسائیکلو پیڈک کتاب جو لکھا ہے تو اسی لئے کہ انسائیکلو پیڈیا میں بھی درج معلومات بسا اوقات پرانی ہو جاتی ہیں لیکن ان کی ایک تاریخی اہمیت ہوتی ہے اور وہ تاریخ دانوں کے لئے مواد کا کام دیتی ہیں۔کتاب میں یوں تو بہت سے صحافیوں ادیبوں اور اساتذہ کے تعارفی مضامین شامل ہیں جو مصنف و مولف کی محنت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن سب سے اچھا اور لائق مطالعہ تفصیلی مضمون خود ڈاکٹر وقار ملک کا ہے جس میں انہوں نے ایس ایم ظفر کی شخصیت کا ایک نئے پہلو سے تعارف کرایا ہے اور ایسے واقعات کو ریکارڈ پہ لے آئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔اگر اس مضمون اور کتاب میں ظاہر کئے گئے خیالات سے ایس ایم ظفر کی شخصیت کی کوئی تصویر بنتی ہے تو وہ ایک قانون داں ہی نہیں ایک قانون پسند پاکستان کے لئے درد دل رکھنے والی محب وطن شخصیت ایک نہایت عمدہ اور صالح انسانایک ایماندار وکیل منکسر مزاج وضعدار صابر و شاکر اور خداوند تعالی سے بندگی کا معاملہ رکھنے والے مسلمان کے طور پر ذہن میں ابھرتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے ایس ایم ظفر کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کی وسعت سے متاثر ہوا ہوں لیکن اس کتاب سے ان کی شخصیت کے بارے میں جو دل آویز تاثرات پیدا ہوئے ہیں انہیں میں کم سے کم لفظوں میں بیان کروں گا تو یہ کہوں گا کہ یہ کتاب پڑھ کر مجھے ان سے محبت اور عقیدت سی ہو گئی اور میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ یا پروردگار ایسی کچھ اور شخصیتیں ہمارے ملک کو تو عطا کر دیتا تو ہمارے ملک اور عوام کی منزل یوں بار بار کھوٹی تو نہ ہوتی۔ایس ایم ظفر کے خیالات اور سوانح حیات
سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگر زندگی میں انہیں اتنی کامیابیاں رب ذوالجلال کی طرف سے عطا ہوئیں تو اس لئے کہ ان کے صوفی اور درویش منشن والد اور ان کی شفیق والدہ کی دعائوں کا سایہ ان کے سر پر دست شفقت کی طرح رہا اور ایک غریب اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایس ایم ظفر کی ذاتی زندگی کے حالات بھی انتہائی سبق آموز ہیں۔کیا اس واقعے میں سیکھنے کا کوئی پہلو نہیں کہ ایس ایم ظفر زمانہ طالب علمی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے مگر گھر کے حالات ایسے نہ تھے کہ فیس ادا کر سکتے۔والدہ نے اپنے زیورات بیچ کر انہیں قانون کی تعلیم دلائی اور جب ایس ایم ظفر نے قانون کی دنیا میں اپنی وکالت کا لوہا منوا لیا اور خداوند تعالی نے ان کا رزق کشادہ کیا تو انہوں نے غریب اور ضرورت مند طالب علموں کے تعلیمی اخراجات فراہم کرنے کا ادارہ قائم کیا، جس سے اب تک بے شمار ضرورت مند طالب علموں کی مدد کی جا چکی ہے۔اسے کہتے ہیں شکر گزاری اپنے ماضی کو فراموش نہ کرنا اور احسان کا صلہ احسان سے دینا۔خدا نے جو کٹھن راستہ ان کے لئے آسان کیا۔کسی قابل ہونے کے بعد ویسا کٹھن راستہ دوسروں کے لئے آسان بنانا۔ یہ کتاب اہل علم اور کتابوں کے شائقین کو تو پڑھنی ہی چاہیے ان طالب علموں کو بھی اس کا مطالعہ کر نا چاہیے جو زندگی میں کچھ اچھا کرنا اور بڑا بننا چاہتے ہیں۔ایک اور واقعہ جس کا ذکر کیے بغیر میں نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ جو وکلا قانون اور انسانی حقوق کے محافظ ہوتے ہیں ان کی اپنی ذات پر قانون کا اطلاق کتنا ضروری ہوتا ہے۔ایک مرتبہ ایک ٹریفک کانسٹیبل نے ایس ایم ظفر کی گاڑی روک لی اور ان سے دستاویزات طلب کئے۔کوئی عام سا وکیل ہوتا تو اس معمولی سے ٹریفک کانسٹیبل کی جرات رندانہ ہی پر مشتعل ہو جاتا اور اپنے کالے کوٹ کا رعب جھاڑنے لگ جاتا۔لیکن ظفر صاحب کی ہدایت پر ڈرائیور نے ایک ایک کر کے سارے دستاویزات کانسٹیبل کے ملاحظہ کے لئے پیش کر دیے۔ڈرائیور نے تنگ آ کے گاڑی کے ریڈیو کا لائسنس بھی پیش کر دیا کانسٹیبل اتنا متاثر ہوا کہ ایڑی بجائی اور ایس ایم ظفر کو عقیدت کا سیلوٹ پیش کیا۔یہ قانون پسندی کا چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن قانون شکن معاشرے کے لئے اس میں بہت بڑا سبق چھپا ہے۔ایس ایم اور معلومات افزا کتاب کو کوئی پڑھنا چاہتے تو عبدالستار عاصم صاحب سے اس نمبر پر رابطہ کر سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں