84

اردو سائنس بورڈ لاہور اور تقریب رونمائی

گذشتہ روز مجھے افسر تحقیق محترمہ فاطمہ بشیر صاحبہ کی جانب سے ایک الیکٹرونک پیغام ملا کہ 20ستمبر 2022 صبح گیارہ بجے تین کتابوں کی تقریب رونمائی ہے ا آج کی تقریب کی صدارت کرنے والی شخصیت جن کا ادب میں بہت بڑا نام ہے میرے پیارے دوست محترم ڈاکٹر طارق ریاض صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔تقریب اور کتب پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو اردو سائنس بورڈ کے بارے میں کچھ معلومات دینا چاہوں گا ۔اردو سائنس بورڈ حکومت پاکستان کا ماتحت ادارہ ہے جو قومی زبان میں اب تک آٹھ سو سے زائد کتابیں شائع کر چکا ہے اور اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے کئی موضوعات پر پہلی بار بنیادی اہمیت کی حامل کتب شائع کیں جو نہ صرف مقبول ہوئیں۔اس بورڈ کے تحت آج جن تین کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی ان میں محترم ڈاکٹر جمیل احمد صاحب کی کتاب “عالمی حدت پذیری”، دوسری کتاب نوید احمد،ڈاکٹر ملک عابد محمود اور ڈاکٹر سمیع اللہ کی مشترکہ کتاب “گھریلو باغبانی”اور تیسری کتاب محترمہ سدرہ صفدر صاحبہ کی “کوڑے سے توانائی اور کھاد کا حصول”تھی تینوں کتابیں اپنے اپنے موضوع کے لحاظ سے یکتا ہیںور اہمیت کی حامل کتابیں ہیں ۔ باقاعدہ تقریب کا آغاز کلام پاک کی تلاوت سے کیا گیا اس تقریب میں نقابت کے فرائض محترمہ عطیہ زارا زیدی نے دیے انہوں نے سب سے پہلے محترم ڈاکٹر راشد حمید صاحب( ایگزیکٹو ڈائریکٹر ادارہ فروغ قومی زبان) کو دعوت دی کہ وہ افتتاحی کلمات کہیں ڈاکٹر راشد صاحب نے سب سے پہلے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ان کے کہنے پر یہاں تشریف لائے اس کے بعد انہوں نے مصنفین کو مبارک باد دی ان کا کہنا تھا کہ ان تینوں کتابوں کو اردو سائنس بورڈ نے شائع کیا ہے ایک کتاب کی بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی قیمت چھ سو روپے ہے یہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے اب آپ ہی بتائیں کہ اس کو اس قیمت پر کون خریدے گا ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم کتاب حکومت پنجاب کے پریس سے ہی چھپوائیں اگر یہی کتاب ہم کسی پرائیویٹ پبلشرز سے شائع کرواتے ہیں تو یہ نہ صرف کم قیمت پر شائع ہو گی بلکہ جلد شائع ہو جائے گی جبکہ گورنمنٹ کے پریس کتاب شائع کروانے کے لئے کئی کئی ماہ و سال لگ جاتے ہیں میرا ذاتی خیال ہے کہ اردو سائنس بورڈ کو یہ حق دے دینا چاہیئے کہ وہ سستی کتاب کہیں
سے بھی شائع کروا سکتے ہیں ۔اس کے بعد” عالمی حدت پذیری” کے مصنف ڈاکٹر جمیل احمد کو دعوت دی گئی کہ وہ حاضرین سے خطاب کریں اور اپنی کتاب کے بارے میں کچھ بتائیں انہوں نے بھی تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب اس کتاب کے سلسلے میں میں نے کچھ گورنمنٹ اداروں سے رابطہ کیا تو کسی نے بھی میری مدد نہیں کی لیکن اس کے باوجود میں نے مواد اکٹھا کیا اور اسے آپ دوستوں کے سامنے پیش کر دیا مجھے امید ہے کہ یہ کتاب آپ کو پسند آئے گی اس کتاب کا موضوع موسمیاتی تبدیلیاں ہے جن کی وجہ سے پاکستان سیلاب کی صورت میں بھگت رہا ہے ڈاکٹر جمیل صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ کتاب اپنے موحوع کے لحاظ سے مکمل احاطہ نہ کر رہی ہو اس میں کچھ کمی رہ گئی ہو ان کا مزید کہنا تھا کہ 22کروڑ کی آبادی میں پانچ سو کتابیں شائع ہوتی ہیں اور یہ بھی سالہا سال پڑی رہتی ہے اور فروخت نہیں ہوتی اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمیں کتاب سے کتنی محبت ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب کو تیار کرنے میں مجھے دو سال کا عرصہ لگا اور اسے شائع کرنے میں بھی دو سال لگ گئے میرا خیال ہے کہ حکومت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مشکلات کو دور کیا جا
سکے جو کتاب کی اشاعت میں اتنا عرصہ لگایا جاتا ہے۔
اس کے بعد دوسری کتاب “گھریلو باغبانی” کے تینوں مصنفین میں سے کوئی بھی تقریب میں شرکت نہ کر سکا لیکن ان کی نمائیندگی جناب عبدالسلام صاحب نے کی اور انہوں نے گھریلو باغبانی کے موضوع پر اسیر حاصل گفتگو کی اور کتاب کی افادیت پر بھی روشنی ڈالی تیسری کتاب “کوڑے سے توانائی اور کھاد کا حصول” کی مصنفہ محترمہ ڈاکٹر سدرہ صدف صاحبہ کو دعوت خطاب دیا گیا انہوں نے کہا کہ کہ گھر کے کوڑے کرکٹ سے ہم پودوں کے لئے کیسے کھاد تیار کر سکتے ہیں اس کے علاوہ پتوں سے کمپوسٹ تیار کی جا سکتی ہے انہوں نے کہا کہ ہر شہر میں جگہ جگہ کوڑا بکھرا پڑا ہے اگر اس کو استعمال میں لا کر توانائی کا ذریعہ بنایا جائے تو ہم کتنا زرمبادلہ بچا سکتے ہیں اس لئے حکومت کواس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ انجینئر محی الدین جی ایم واپڈا ریٹائرڈ، ،ڈاکٹر فریحہ عروج صاحبہ اور عبدالسلام خان صاحب نے بھی باری باری ان تینوں کتابوں پر روشنی ڈالی اور ان میں شامل کچھ ابواب کے بارے میں شرکاء کو تفصیل سے بتایا آخر میں تقریب کی صدارت کرنے والے محترم ڈاکٹر طارق ریاض صاحب نے شرکاء سے خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس سال آئی ٹی میں سب سے آگے ہے لیکن وہاں پر چالیس لاکھ سے زیادہ کتابیں ایک سال میں شائع ہوئیں اور ان کی آبادی بھی صرف دو کروڑ ہے اس حساب سے تو پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے تو یہاں کتابیں بھی بائیس کروڑ شائع ہونی چاہیں ان کا کہنا تھا کہ والدین اور اساتذہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ طالب علموں میں کتاب بینی کو فروغ دیںان کا کہنا تھا کہ ہماری بیورو کریسی میں ایسے کچھ لوگ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک سے کوئی ڈاکٹر قدیر یا ڈاکٹر عبدالسلام بنے انہوں نے تعلیم اور کتاب سے متعلق حاضرین کو بہت ساری مفید بتائیں اور آخر میں سب مصنفین کو مبارکباد دی ۔ اس کے ساتھ ہی تقریب کا اختتام ہو ا اور تمام شرکاء کی چائے بسکٹ سے تواضع کی گئی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں