119

”عوام کی جیت ”

مرزا رضوان

پاکستان کی معزز عدلیہ سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس فیصلے سے لیکر حالیہ وزیراعلی پنجاب الیکشن کیس کا فیصلہ آنے تک کے درمیانی عرصے میں بہت سے واقعات رونما ہوئے مگر مورخ نے اہمیت نہ دیتے ہوئے تاریخ کا حصہ نا بنایا،لیکن گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی معزز عدلیہ سپریم کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ دیکر مورخ کو حقیقی خدمت کا دعویٰ تو ہوتا رہا مگر پاکستان نے کس قدر ترقی کی آج کے سوشل میڈیا کے اس میں دور شاید کسی کو بتاتے کی ضرورت نہیں رہتی ، آج کا سوشل میڈیا ہر شہری کو لمحہ بہ لمحہ خبر پہنچا رہاہے ، کسی وقت پاکستان میں ذرائع ابلاغ صرف ریڈیو، ٹی وی اور اخبار تک محدود تھے ، آج میڈیا کی لگام پکڑنا تو کیا تلاش کرنا بھی ناممکن نظر آرہاہے ، اسی میڈیا کی نظر میں ”ڈکٹیٹر ”ٹھہرنے والے افواج پاکستان کے عظیم سپہ سالار اور محب وطن سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ریڈیو ، ٹی وی اور اخبار کے ساتھ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیاکو جس طرح پروان چڑھایا اسکی مثال ماضی میں ملنا نہ ممکن ہے ، اور جنرل پرویز مشرف کی حب الوطنی پر قطعی شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں کہ ”پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے ”اوردل کو تکلیف بھی دیتے ہیں ، بلاشبہ اس مملکت خداداد کا اللہ کی نگہبان ہے۔ اسی الیکٹرانک میڈیا کی یلغار نے ملک وقوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ عوام مفاد کو بھی نظر انداز کرنا شروع کردیا ، عوامی رابطہ مہم سے اقتدار میں آنے تک کا سفر میڈیا مالکان نے انتہائی آسان کردیا ، بھاری رقوم لیکر الیکشن کمپین ، الیکشن نتائج سے اقتدار منتقلی تک اور ہر وقت ملک وقوم کیلئے سب اچھا ہے کی رپورٹ کی ذمہ داری انہی میڈیا مالکان نے اپنے سر لی ، حب الوطنی کے نام نہاد بیانیے کو بنیاد بنا کر حقیقت میں کچھ اور خدمات سرانجام دی جانے لگیں، ہر وقت ان کی عوامی خدمت کے چرچے ، سپیشل پروگرامز کے ذریعے یہی بتایا اور دکھایا جاتا ہے کہ پاکستان ترقی کی منازل تیزی سے طے کررہاہے، جبکہ حقیقت میں ملک وقوم کا مفاد قربان ہوتا رہا، بڑے بڑے سپلیمنٹ لگا کر حکمرانوں کی واہ واہ کو صحافتی اقدار میں شامل کرلیاگیا ۔ لیکن اس پاک سرزمین پر پیدا ہو کر اسی کی مٹی میں پروان چڑھ کر اسی مٹی سے دھوکہ دہی ، مفاد کی خاطر ملک وقوم کی عزت دائو پر لگادینی شاید جمہوری روایات میں حقیقی طور پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہم بات کریں پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی تو وہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیاد ت پروان چڑھی جس کی بدولت سب نے ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے قیام پاکستان میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ اس پاک سرزمین پر پیدا ہونے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنی اس سرزمین سے ہر صورت وفاکریں گے لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہی ہے ۔
اب ہمیں اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی ذات کے علاوہ اس ملک وقوم کیلئے کیا مثبت کررہے ہیں یا پھر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، جب سے ہوش سنبھالا ہے مورخ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہاں آنکھ کھولی اور یہیں پر آنکھیںبند ہونی ہے تو پھر اس دوران کی زندگی میں اسی مملکت خداداد کی کیا عملی خدمت کی۔اس حقیقت سے تو سبھی آشنا ہیں کہ بلاشبہ پاکستان کلمہ حق کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا، قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی لندن سے برصغیر آمد سے تحریک پاکستان کا آغاز ہوتا ہے ،بانی پاکستان کے اس نیک مشن کی حمایت میں اللہ اور اسکے پیارے حبیب خاتم النبیین سیدنا محمد مصطفی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر رحمت کی تائیدکیلئے اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سب کچھ عیاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے کہ کس کس عظیم شخصیت نے بانی پاکستان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کا مکمل ساتھ دینے کا کھلے عام اعلان بھی کیا اور اپنے عزیز و اقارب، رشتہ دار حتی کہ اپنے مریدین و عقیدت مندوں پر لازم قرار دیا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ہر صورت ساتھ دینا ہے اوراس مملکت خداداد کے قیام کی تحریک کو کامیاب کروانا ہے۔
دوسری جانب اگر ہم تاریخ کے کچھ اوراق الٹائیں تو معلوم ہوتا ہے ہمارے کیسے کیسے چہروں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مخالفت کی اور کس قدر من گھڑت الزامات لگائے، یہاں تک کے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پر کفر کے فتوے بھی
لگائے گئے۔لیکن اس شدید ترین مخالفت کے باوجود تحریک نا رک سکی اور خطہ برصغیر پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ اور انکے قریبی دوستوں نے قیام پاکستان کی حمایت اور مخالفت کرنیوالوں کو یکساں ویلکم کیا۔ پھر وہی مخالفت کرنیوالے بھی پاکستان کے میدان سیاست میں اس عہد سے آئے کہ وہ عوام کی حقیقی حکمرانی اور فلاح کیلئے خدمت عین عبادت سمجھ کر کریں گے۔عوام نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے دین حق کی سربلندی اور ملک و قوم کی حقیقی خدمت کیلئے خود ان کے سپرد کر دیا۔انکی خدمت کا سلسلہ یہ ہوا کہ عوام محنت مشقت اور روٹی کی مانگ کی طرف بھاگ نکلی اور ہمارے خدمات گزار امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے۔یہاں تک جو امیر تھا وہ کہیں زیادہ دولت کی بلندی کو چھو چکا ہے۔ مجھے آج تک کوئی سیاست دان ایسا نہیں ملا جو خود اپنوں ہاتھوں سے محنت مشقت بھی کرتا ہوں اور سیاست و حکمرانی بھی، محنت و مشقت عوام کرے اور اربوں پتی میرے سیاستدان ہوں، کیسا کمال کا فار مولا ہے، ہے ناں ۔۔۔ واہ ری جمہوریت تیرے وارے نیارے۔
وہ سیاست دان جو سیاست میں آنے سے پہلے کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور آج اسکا سلسلہ کچھ یوں بھی ہے جن سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے ہمیں آزاد کروایا تھا اور الگ ملک لیکر دیا تھا ہمارے ان سیاستدانوں نے ہمیں کیا ہماری آنیوالی نسلوں کو بھی مقروض کر دیا، جبکہ عوام تب سے آج تک محنت و مشقت ہی کر رہی ہے۔عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے لالچ نے ایسا گمراہ کیا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہونے کا مقصد ہی بھول گیا ۔ اس لوٹ مار سے بے خبر عوام ان پر ہر مرتبہ اندھا اعتماد کرتی رہی اور انکی لوٹ مار اور غیروں کی غلامی اور خدمت گزاری کے عوض ڈالروں اور مراعات لینے کا نہ تھمنے والا سلسلہ عروج کو پہنچ گیا،جہاں عوام کے ملکی بنکوں میں اکاؤنٹ کھلنا ناممکن ہوں وہاں پر انہی ہمارے خدمت گزاروں کے فارن اکائونٹ اور بیرون ممالک کے بنکوں میںاکاوئٹ کھلے۔عوام کے بچے ہر بنیادی سہولت سے محروم اور انکے بچے بیرون ملک بچپن گزاریں اور وہیں تعلیم حاصل کریں، واہ ری جمہوریت۔۔۔ افسوس کن صورتحال تو یہ ہے کہ پاکستان میں محنت و مشقت عوام کرتی رہی اور جنہوں نے زندگی بھر کوئی کام نہیں وہ اربوں پتی بنتے گئے ، ملکی و غیر ملکی اثاثوں میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا ۔یہاں پر انہیں خدمت گزاروں کی حب الوطنی دیکھیں کہ یہ عوام کی طاقت ”ووٹ”کی بدولت اقتدارمیں آئے اور پھر انہیں کے ووٹ کو اپنے مفاد کی خاطر بیچ کر خاطر خواہ رقم بھی
وصول کرتے رہے اور یہاں سے پیسہ بیرون ممالک کے بنکوں میں ٹرانسفر ہوتا رہا ، پھر بیرون ممالک میں بڑے بڑے کاروبار ، ذاتی پراپرٹی خریدی گئی ، جب بھی ان پر کوئی سیاسی دبائو آتا ہے تو پھر پاکستان نہیں بلکہ بیرون ممالک اپنی دوسرے گھر میں قیام پذیر ہوجاتے جبکہ عوام اسی دلدل میں پستی رہی ،اورہماری عوام لوٹ مار کے ان ہتھکنڈوں سے بالکل بے خبررہی اور ان کے ہی نعرے لگاتی رہی ، پھر بین الاقوامی میڈیا نے ان محب وطن خدمت گزاروں کے بیرون ملک اکاونٹس کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کیا تو ایک ہنگامہ پربا ہوگیا ۔پھر بات عدالتوں تک پہنچی جہاں انہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔۔۔تو پھر عوام کی آنکھیں کھلی کہ حقیقت ہے کیا ،اور پھر عدالتوں سے ہی ان کے اقتدار میںرہنے کو جواز بنا کر نکالاگیا ، عوام کو سوشل میڈیا کی بدولت دیگر معاملات سے بھی آشنائی ملتی رہی ، جبکہ ان محب وطن کی حالت یہاں تک آپہنچی کہ عوام کا ووٹ کروڑوں روپے کے عوض فروخت ہونے لگا ، بھاری رقوم لیکر ملک وقوم کے مفاد کا گلہ دبایا جانے لگا ۔
محترم قارئین ! انہی محب وطنوں کے کارناموں پر عدالتوں میں انکے خلاف قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے پر کیسز بنے اور وہیں سے پوری قوم کے سامنے عیاں ہوا کہ یہ ہمارے محب وطن کس قدر ملک وقوم کی خدمت میں مصروف عمل رہے جبکہ پوری قوم محنت مشقت کرنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں مصروف تھی ۔آج اگر انہی مقدمات میں انہیں کسی عدالت میں بلایا جاتا ہے تو وہاں پر
بیماریوں کے سرٹیفکیٹ پیش کردیئے جاتے ہیں کہ موصوف بیمار ہیں قریب المرگ ہیں جبکہ اقتدار ملتے ہی سب کو” ابدی تندرستی” مل گئی اور پھر عوامی خدمت کا آغاز ہوا ۔ملک پر مسلط ہوتے ہی اپنے تمام کیسز ختم کرکے خود کو آزاد کروا لیا ، جبکہ غریب انصاف کے حصول کیلئے اس ملک میں اپنی کئی نسلوں تک جنگ لڑتا ہے لیکن پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کی ڈگر میں غریب اپنا کیس ہار جاتا ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں جو ان مافیاز کا مقابلہ کرسکے ۔اگر ان کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا بھی ہے تو اسے ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا جاتا ہے یا پھر من گھڑت کیس کی نظر ہوجاتا ہے، یہ سلسلہ قیام پاکستان سے آج تک جاری ہے ، ان محب وطنوں کے خلاف کوئی گواہی نہیں دے سکتا ، اور یوں عام آدمی یاںتو مار دیا جاتا ہے یاں اسکا جینا بھی حرام کردیا جاتا ہے ۔حالیہ گذشتہ چار پانچ ماہ پاکستان کی سیاسی صورتحال بھی کچھ یوں ہی ہے ، پاکستان کی بڑی عدالتوں سے سزا یافتہ محب وطنوں کو حکومت دیکر ملک پر مسلط کردیا گیا جس پر عوام سراپا احتجاج بنی اور ملک بھر میں احتجاجی جلسوں میں عوام کی غیرمعمولی شرکت نے ان محب وطنوں کا راستہ روکنے کا تہیہ کیا ، عام عوام میں ان کا خوف اس قدر کہ ان کے سامنے تو کیا ان کی عدم موجودگی میں حق و سچ بات کہنے سے ڈرتی ہے ،لیکن عوام میں سوشل میڈیا نے وہ اعتماد کی فضا کو بحال کیا کہ پوری قوم نے پہچان لیا کہ کون کس قدر اس ملک وقوم کیلئے مخلص ہے ، حیران کن بات یہ ان محب وطنوں کے حق میں جب کوئی عدالتی فیصلہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آئین و قانون کی بالادستی ہے ، لیکن اگر کوئی فیصلہ ان کے مخالف آجائے پھر اعلیٰ عدلیہ اور ججز پر الزامات کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عوام میں بیدار ہونیوالے شعور نے پاکستان کے ہر شہری کو ایک پلیٹ فارم متحد و یکجا کردیا ہے کہ ان مافیاز سے جان چھڑانی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہے جس کے حصول کیلئے پوری قوم آجکل میدان میں اتر چکی ہے ، بلاشبہ پاکستان کی معزز عدالت سپریم کورٹ نے جب کوئی فیصلہ دیا وہ حق اور سچ پر مبنی اور ملک وقو م کے وسیع تر مفاد میں ہی دیا ۔اب ان پر تنقید اور من گھڑت الزامات ہمارے ان محب وطنوں کی حب الوطنی پر سرخ دائرہ لگانے کیلئے کافی ہیں ، لہذا وزیراعلیٰ پنجاب الیکشن کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بلاشبہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جو حق و سچ کی بنیاد پر دیا گیا ، اس فیصلے کی بنیاد پر ”جیت عوام” کی ہے اور پوری قوم اس تاریخی فیصلے پر سپریم کورٹ کی شکرگزارہے ۔یقینا پاکستان اب بدلنے جارہا ہے وہ سب روایات جن کی بدولت ماضی تا حال وطن عزیز پاکستان حقیقی جمہوریت اور ترقی و خوشحالی سے محروم رہا، یہاں مجھے معروف درویش صفت انسان حضرت واصف علی واصف کا وہ قوم قول یاد آرہاہے کہ ”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ”اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور اس سرزمین سے ہر زوال کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے میں ہماری مدد و رہنمائی فرمائے ۔ آمین یارب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں