jamil marghzi 134

ہم اور ہماری تہذیب ؟

عورتوں کے حقوق ‘خاص کر وراثت میں ان کا حصہ ‘بچپن کی شادی یا قرآن سے شادی‘ تین طلاق کا مخمصہ ‘حلالہ کی حقیقت ‘فرقہ واریت کے مسائل ‘جہاد کی مبہم تعبیر ‘خود کش حملوں کی حقیقت اور اسلام کی معتدل تشریح کے بجائے انتہاپسند تعبیر ‘اجتہاداور اجماع امت کی ضرورت جیسے لاتعداد مذہبی مسائل پر قوم تقسیم ہے‘ان مسائل پر ہمارے مذہبی علماء کرام کبھی بھی بحث نہیں کرتے بلکہ ان کا سب سے مرغوب موضوع ہے کہ ’’ مغرب ہماری تہذیب ختم کرنا چاہتا ہے‘‘۔

کچھ علماء نے سیاست شرو ع کردی ہے ا ور کچھ نے ملک کو ’’مغربی تہذیب سے بچانے‘‘کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔شاید ان کا مدعا یہ ہے کہ ہماری کوئی اعلیٰ و ارفع تہذیب و ثقافت ہے اور مغرب والے اپنی کم تر تہذیب کے لیے اس کو ختم کرکے ہمیں اندھیروں‘ جاہلیت اور برائیوں کی دلدل میں پھنسانا چاہتا ہے‘ سوال پیدا ہو گا کہ ہماری وہ بہترین تہذیب کون سی ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہیں‘ جس کو نگوڑا مغرب ختم کرنا چاہتا ہے؟آئیے ذرا اپنی موجودہ’’بہترین‘‘ تہذیب کا جائزہ لیں۔

رشوت ‘خوشامد‘موقع پرستی ‘فتوے بازی‘دہشت گردی‘ہمسایوں سے لڑائی‘پراکسی جنگوں کی پالیسی ‘قیمتی اثاثوں کی شکل میں پالے گئے دہشت گردوں کی ٹولیاں‘ہر شہری مقروض بلکہ وہ بھی مقروض جو ابھی رحم مادر میں ہے‘خود مختاری گروی ‘کشکول بدست حکومتیں‘ غربت ‘بے روزگاری‘استحصال‘غربت کے ہاتھوں ملک کے اندر اور بیرون ممالک خاص کر خلیجی ممالک میں حوا کی بیٹیوںکی کھلی خرید و فروخت اور جسم فروشی‘روزگار کی تلاش میں غیر ملکی سفارت خانوں کے چکر اور ویزوں کے لیے منتیں‘جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کا راج‘پارلیمنٹ کے نام پر تنخواہیں‘مراعات ‘ٹی اے اور  ڈی اے کے حصول کا ایک کلب‘فرقہ پرستی اور مذہب کے نام پر ہر طرف قتل و غارت‘ مذہب کی تشریح و تعریف پر خونریز اختلافات ‘داڑھی کی لمبائی اور پائنچے کی اونچائی پر دین کا انحصار ۔میرا تو خیال ہے کہ مغرب کی خواہش ہوگی کہ یہ تہذیب بجائے ختم ہونے کے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے‘ تاکہ وہ اس سرزمین کے وسائل ہڑپ کرسکے اور آپ کے ملک کو اپنی اشیاء کی مارکیٹ کے طور پر استعمال کرسکے۔

ہماری پوری زندگی منافقت اور دروغ گوئی پر استوار ہے۔ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’’ماں کے پیروں تلے جنت ہے‘‘جب بڑے ہوکر گھر سے باہر قدم رکھتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ’’عورت پاؤں کی جوتی اورہماری ذاتی ملکیت ہے۔‘‘

علماء کرام کہتے ہیں کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر گلی‘  کوچہ‘کوڑادان اورکچرا دان ہے ‘سنتے ہیں کہ مسلمان بھائی بھائی ہیںلیکن جب حقیقت کھلتی ہے کہ نہیں، ہم تو جاٹ ‘گجر‘ راجپوت ،آرائیں‘شیخ‘بٹ‘ وڈیرہ‘ خان‘ چوہدری‘ سرداراورکمی‘بھی ہیں‘اوراس کے علاوہ سنی‘ وہابی‘ شیعہ‘بریلوی اوراب تو اہل سنت ‘سپاہ صحابہ و لبیک بھی ہیں۔مہاجر‘پنجابی‘سندھی‘پختون اوربلوچ پہلے ہیںبعد میں کچھ اورہماری اسلامی برادری اتنی مضبوط ہے کہ دولاکھ لوگوں کی قربانی دے کر بھائیوں نے بنگلہ دیش میں علیحدگی اختیار کرلی اور سعودی عرب نے امریکا سے اپیل کی کہ شام کے مسلمانوں پر بمباری کے جائے اورایرا ن کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے۔

مغرب کی تہذیب اور ہماری تہذیب میں بہت فرق ہے‘ ان کی تہذیب کی بدولت تو مولانا صاحب سمیت ہمارے اکابرین‘ ہوائی جہازوں میں دنوں کا سفر منٹوں اور گھنٹوں میں طے کرتے ہیں‘موبائل فون کان سے نہیں ہٹاتے ‘ٹی وی کی اسکرین سے نہیں ہٹتے‘ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ مغرب کی تہذیب ایجادات اور علم کی تہذیب ہے اور ہماری تہذیب ان ایجادات کے خلاف فتوؤں کی تہذیب ‘عقیدہ ہمارا ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘لیکن یہ صرف کتابوں میں ہے اصل نصف ایمان کی تہذیب مغرب کی ہے اور صفائی کو انھوں نے جزو ایمان بنالیا ہے۔

وہ جھوٹ نہیں بولتے جب کہ یہاں اس کے بغیر زندگی اور کاروبار کا تصور نہیں کیا جا سکتا ‘یہاں سچ غائب ہو گیا ہے ‘وہاں جعلی دوا کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘ یہاں جینوئن دوا ڈھونڈنی پڑتی ہے ‘وہاں جمہوریت کی تہذیب ‘یہاں آمروں کی حکومتیں ‘وہاں ڈسپلن کی تہذیب ‘یہاں افراتفری ‘نفسانفسی ‘بدتمیزی اور سرکس کا سماں۔ان کے تعلیمی ادارے علم کے گہوارے ‘یہاں گھوسٹ اسکول اور فرقہ واریت پھیلانے والے دارالعلوم‘ وہاں سائنسدان کی عزت اور یہاں اس کو کافر کہنے کا رواج‘وہاں پابندی اوقات کی تہذیب یہاں اس کا تصور بھی نا پید‘وہ میرٹ کی تہذیب یہاں خوشامد اور سفارش کا کلچر ’ وہ محنت کی تہذیب یہ کام چوری کی تہذیب ‘ان کی ٹیکنالوجی فاتح عالم ‘ہماری ٹیکنالوجی حلال جانور کے گوشت میں پانی انجیکٹ کرکے وزن بڑھانا ‘وہ ناپ تول میں پورا ہونے کی تہذیب یہ ڈنڈی مار معاشرہ ‘وہاں سالہا سال قیمتیں مستحکم یہاں ہفتہ میں سات دن اضافہ ‘وہ کرسمس اور دوسری مذہبی تہواروں پر قیمتیں کم کردیتے ہیں یہاں رمضان اور دوسری مذہبی تہواروں میں بلیک ‘مہنگائی اور لوٹ مار کی عظیم تہذیب‘ وہ ویلفیئر اسٹیٹس اور عوام کی فلاح و بہبود کی تہذیب یہاں سیکیورٹی اور دفاعی اخراجات اور بیوروکریسی کی تہذیب‘ وہاں جھوٹی گواہی کا تصور ناپید یہاں پیشہ ور جھوٹے گواہوں کے گروہوں کی تہذیب ۔

معاف کیجیے ہمارے دائیں بازو کے دانشور کس تہذیبی تصادم کی بات کر رہے ہیں‘ تصادم کے لیے دو فریق ضروری ہوتے ہیں‘ہم تو ابھی تک اس تہذیبی ریس میں شامل ہی نہیں ہوئے ‘مغربی ممالک کے کتنے  سربراہوں نے پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ کھول کر یہاں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور کتنے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے یہاں پر جائیدادیں خریدی ہیں؟ جب کہ ہمارے ملک بلکہ امت مسلمہ کی دولت کا زیادہ حصہ مغربی ملکوں کی بینکوں اور جائیدادوں میں لگا ہے‘ ہمارے بڑے سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے بچے اس وقت تک تعلیم یافتہ نہیں کہلاتے جب تک ان کے پاس یورپ یا امریکا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہ ہو‘کیاوہاں کا بھی کوئی بچہ یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھتا ہے؟ اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور اپنے جسم اور گھر میں دیکھیں تو ہر طرف ان کو مغربی تہذیب کے نمونے نظر آئیں گے۔

ہمارے گھر سیمنٹ کے بنے ہیں ‘وہاں پر بجلی اور اس پر چلنے والے فریج‘ایئر کنڈیشنڈ ‘ ہیٹر ‘ٹی وی‘استری ‘پنکھے‘کمپیوٹر ‘پانی گرم کرنے والے گیزر ‘کھانا گرم کرنے والے مائیکرواوون‘بستر پر بچھانے والے فوم ‘دنیا بھر سے رابطہ رکھنے والی موبائل ٹیلی فون یا عام ٹیلی فون اور وقت دیکھنے والی گھڑی غرض کون سی ایسی چیز زیر استعمال ہے جو ہم نے ایجاد کی ہو یا بنائی ہو‘حتی کہ جائے نماز اورتسبیح بھی چائنا کے اور آب زم زم کے بوتل فرانس کے استعمال ہو رہے ہیں۔

مولانا صاحب کو تو پہلے یہ بات صاف کرنی چاہیے کہ مغربی اور مذہبی تعلیمی اداروں میں کیا فرق ہے؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے ملک میں نظام تعلیم دو مخالف طبقے پیدا کر رہا ہے‘ ملک میں یہ تقسیم اس قدر گہری ہے کہ جیسے دو الگ الگ دنیاؤں کے لوگ اس مملکت پاکستان میں اکھٹے رہنے اور سانس لینے پر مجبور تو کردیے گئے ہیںمگر دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں‘دونوں کی زبان اور سوچ کا انداز ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے۔

دونوں ایک دوسرے کو نہ صرف سخت نا پسند کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت تک کرنا دونوں کے لیے مشکل ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کے لیے ایک دوسرے کی بات سمجھنا اور ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھنا ناممکن نظر آتا ہے۔ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کا ناممکن ٹاسک ہی دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تشدد اور جنگ پر مجبور کرتا ہے ‘دونوں کی ٹرمینالوجیز ‘ہیروز ‘اور ولن جو دونوں کو بچپن سے ان کے نصابوں میں پڑھائے گئے ‘وہ تک مختلف ہیںسچ پوچھیں تو قبلے تک مختلف ہیں۔ ہمارے ملک میں کچھ کا ہیرو راجہ داہر ہے توکچھ کا ہیرو محمد بن قاسم ہے، کچھ کا ہیرو محمود غزنوی اور کچھ کا راجہ جے پال تو دوسرے کا چرچل اور شاید دونوں ہی ایک دوسرے کے ہیروز سے نا آشنا ہیں۔

ایک وہ نسل اور طبقہ ہے جو میڈونا اور لیڈی گاگا کے گانے گنگناتا ہے اور وان ڈیم ‘بروس ولس ‘دی راک اور آرنالڈ شیوازینگر کی فلمیں دیکھتا ہے تو دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیںجو ان ناموں سے بے خبر ہیں اور جن کے آئیڈیل عرب کے ریگستانوں سے جنم لیتے ہیں،ایک طبقہ ان اداروں میں پڑھتا ہے جہاں کا نصاب بتاتا ہے کہ عورت بغیر محرم گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتی تو دوسری طرف وہ ادارے ہیں جہاں ہر ویک اینڈ پر مخلوط پارٹیاںہوتی ہیںاور فیشن شوز منعقد کیے جاتے ہیں۔

ایک طبقہ وہ ہے جس کے پیروں میں ڈھنگ کے چپل تک نہیں اور دوسرا طبقہ اپنے وقت کا بڑا حصہ لوئی وٹان ‘ورساچی‘نائیکے‘ باڈی شاپ اور باس جیسے برانڈز کی نئی کو لیکشن کو ڈسکس کرنے میں صرف کرتا ہے ‘ایک طبقہ انتہائی سیکولرا ور جمہوری سوچ رکھتا ہے اور ایک طبقہ اپنے فرقے کے علاوہ ہر ایک کوکافر سمجھتا ہے ‘مولانا صاحب! جب تک اس ملک میں یکساں نظام تعلیم اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی ‘دولت کی دوڑ اور فرقہ واریت چلتی رہے گی اس وقت تک ہم ’’تہذیب یافتہ‘‘ تو کیا ’’ تہذیب سے آشنا‘‘ قوم بھی نہیں کہلا سکتے‘ وسائل اورمسائل کی جنگ کو تہذیبوں کی جنگ سامراجی ادارے قراردیتے ہیں‘ ہمارے علمائے کرام بھی ان کی بات کو تقویت دیتے ہیں‘ جو خطرناک عمل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں