118

ملکی سیاسی عدم استحکام اور سیاستدانوں کی ذمہ داری

یاسر الطاف رانا ایڈووکیٹ

پاکستان میں چند مہینوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے یہ کوئی ایسی سیاسی ہلچل نہیں ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا نا ہی کوئی مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے اور نا ہی کوئی ایسا سیاسی ارتقائی عمل ہے جس سے عوامی فلاح یا کسی ایسے نظریہ کو تقویت مل رہی ہے جو صیح معنوں میں جمہوری معاشرہ میں بہتری کی طرف گامزن ہوتا ہیپچہتر سالوں سے ہمارا معاشرہ تنزلی کا شکار ہے اور مزید تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے پاکستان میں جب بھی جمہوریت تھوڑی بہت پٹری پر چڑھنے لگتی ہے تو کوئی نا کوئی فوجی ڈکٹیٹر اپنے ڈنڈے سے سارا نظام پلٹ دیتا رہا ہے یا ایسا سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا جا ہے جس سے معاشرہ بہتری کی طرف جانے کی بجائے مزید پیچھے آنا شروع ہو جاتا ہےآج تک اس ملک میں کبھی بھی کوئی ایسی حکومت وجود میں نہیں آسکی جسے آزاد اور جمہوری حکومت کہا جا سکے سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ڈنگ ٹپاو طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی اپنا مائی باپ تسلیم کر چکی ہیں جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ نعرہ تو انٹی اسٹیبلشمنٹ کا لگاتے ہیں لیکن جب اقتدار کی کرسی ملنے کا امکان نظر آتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے پاں میں پڑ جاتے ہیں عمران خان کی حکومت پونے چار سال اقتدار میں رہی لیکن ایک دن بھی اسکو اسٹیبلشمنٹ میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی اور ہمیشہ ایک ہی بیان داغا گیا کہ ہم ایک پیج پر ہیں لیکن جونہی عمران خان کو ایک جمہوری عمل کے زریعے سے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو پھر انکو امریکی سازش بھی نظر آ گئی اور اسی وقت وہ نیوٹرل کے خلاف بیانیہ بنانے میں بھی سب سے بڑھے انٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر بن بیٹھے ہیں لیکن حقیقت میں وہ روز نیوٹرل کو پکارتے ہیں کہ میری بیساکھی بنو جا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور اگر تم میرے ساتھ نہیں ہو تو اسکا مطلب ہے کہ تم خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہواسی طرح مسلم لیگ ن نے چار سال تک ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور جسکا مطلب تھا کہ عوام کے ووٹ کے برعکس اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرکے ایسے لوگوں کو اقتدار پر مسلط کر دیتی ہے جن کو مصنوعی طریقہ سے پروموٹ کیا جاتا ہے اور اس بیانیہ کو عوام میں پزیرائی بھی ملی اور عوام نے اسی بیانیہ کو مانتے ہوئے عمران خان کے اقتدار کے دوران تمام ضمنی الیکشن میں اپوزیشن کو بھرپور ووٹ دے کر تمام نشستوں پر کامیاب بھی کروایا لیکن
جونہی عمران اسٹیبلشمنٹ اکٹھ جوڑ میں دراڑیں پڑیں تو مسلم لیگ ن نے اپنا بیانیہ بھول کر اقتدار کے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور فوری طور پر عمران خان کی آنکھ کا تار اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو آنکھ کا کانٹا محسوس ہونے لگی اور نواز شریف کے اسی بیانیہ کو عمران خان نے کھل کر بیان کرنا شروع کر دیا جسکو مسلم لیگ ن دبے لفظوں میں بیان کر رہی تھی اور اسی بیانیہ کو کھل کر بیان کرنے پر پنجاب اسمبلی کے بیس صوبائی حلقوں کے ضمنی الیکشن میں سے پی ٹی آئی نے پندرہ حلقوں میں کامیابی حاصل کی اور اس
میں کوئی امر معنے نہیں کہ ووٹ صرف عمران خان کے بیانیہ کو پڑا یہ بات الگ ہے کہ خان کا بیانیہ کتنا سچا یا کتنا جھوٹا ہے لیکن عوام کی اکثریت نے خان کے اس بیانیہ کو سچ مانا اور اس کے امیدواروں کو کامیاب کروایا یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلی دفع ایسے سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ واقعی ہی نیوٹرل رہی تھی اب اصل مسل یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عوام کل بھی غیر نظریاتی تھی اور اج بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی اپنے مسائل کا حل اِنہی چلے ہوئے سیاسی کارتوسوں میں ڈھونڈ رہی ہے جو پچھلے پچہتر سالوں سے کسی نا کسی صورت میں ان پر حکمرانی کر رہے ہیں چلیں مان لیا کہ جب تک یہ جاگیردار یہ پیر گدی نشین یہ سرمایہ دار یہ الیکٹیبلز ہی ہر اس جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں جس کی خوشبو ان کو پہلے ہی آ جاتی ہے کہ اب اقتدار اس جماعت کو ملنے والا ہے لیکن تین چار مقبول جماعتوں کو وجود میں آئے چالیس سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے انہوں نے اچھے برے تمام دور دیکھے ہوئے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بیج پر آنا چاہیے اور نواز شریف کے اس بیانیہ ووٹ کو عزت دو جس کو فاشسٹ عمران خان نے کھل کر بیان کیا چاہے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ کی منت سماجد بھی کرتا رہا کہ مجھے قبول کر لو لیکن اب ضرورت ہے کہ تمام سیاسی قیادت کو ایک بیانیہ پر آنا ہوگا ورنہ یاد رکھا جائے کہ بنگلا دیش کسی جنگ کے نتیجہ میں علیحدہ نہیں ہوا تھا صرف اور صرف سیاسی عدم استحکام ہی تھا اسٹیبلشمنٹ کی ہٹ دھرمی اور
سیاستدانوں کی اقتدار کی کشماکش ہی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدھ ملک ٹوٹ کر ایک نئی ریاست وجود میں آ گئی عمران کی حکومت نے ملکی معاشیت کا جو بڑا غرق کیا اس کا سارا ملبہ مسلم لیگ ن اپنے سر پر ڈال چکی ہے اور آج ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور اگر سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھوک افلاس تو اپنی جگہ بڑے گی لیکن ملک کی سالمیت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں روس کے بائیں بازو کے لیڈر لینن کا ایک قول ہے جب غربت انقلاب پیدا نہیں کرتی تو پھر جرائم پیدا کرتی ہیاس ریاست کی عوام کا زہنی معیار ابھی اس نہج تک نہیں پہنچا کہ یہ کوئی انقلاب برپا کر سکیں لیکن چوری ڈکیتی اور چھینا جھپٹی جیسے جرائم میں روزانہ کی بنیاد پر خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہیاب یہ بات تو حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ایک مظبوط سیاسی جماعت بن چکی ہے اور اسکی جڑہیں عوام میں ہیں اور عمران خان بھی ایک مقبول اور مظبوط لیڈر کے طور پر سامنے آیا ہے اور خان کو بھی چاہیے اب ہٹ دھرمی چھوڑ دئے اور مزاکرات کے ٹیبل پر سب سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھے اور سب مل کر اس ملک کی ڈوبتی نئیاسہارا دیں یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی اکیلی جماعت اکیلے اس نظام کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کر سکے گی اس اب تمام سیاسی اکابرین کو کھلے دل کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا ہوگا تاکہ مزید بربادی سے بچا جا سکے اور ریاست بھی اپنا وجود قائم رکھ سکے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی چاہیے کہ اپنا سیاسی کردار کو تھوڑا کم کرکے سیاستدانوں کو اپنا کام کرنے دے اور اگر ایسا نا کیا گیا تو پھر یاد رکھا جائے پھر نا رہے گا بانس اور نا بجے گی بانسری اب یہ بات تو حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ایک مظبوط سیاسی جماعت بن چکی ہے اور اسکی جڑہیں عوام میں ہیں اور عمران خان بھی ایک مقبول اور مظبوط لیڈر کے طور پر سامنے آیا ہے اور خان کو بھی چاہیے اب ہٹ دھرمی چھوڑ دئے اور مزاکرات کے ٹیبل پر سب سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھے اور سب مل کر اس ملک کی ڈوبتی نئیاسہارا دیں یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی اکیلی جماعت اکیلے اس نظام کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کر سکے گی اس اب تمام سیاسی اکابرین کو کھلے دل کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا ہوگا تاکہ مزید بربادی سے بچا جا سکے اور ریاست بھی اپنا وجود قائم رکھ سکے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی چاہیے کہ اپنا سیاسی کردار کو تھوڑا کم کرکے سیاستدانوں کو اپنا کام کرنے دے اور اگر ایسا نا کیا گیا تو پھر یاد رکھا جائے پھر نا رہے گا بانس اور نا بجے گی بانسری۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں