169

ظفر علی خان اور ان کا عہد

تاثیر مصطفی

بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ملت اسلامیہ کے ان عظیم المربیت افراد میں سے ایک ہیں جھنیں قدرت کسی قوم کو اس وقت ودیعت کرتی ھے جب اس کی تقدیر بدلنا مقصود ھو۔آج کی نئی نسل اس مرد مجاہد کی زندگی سے پوری طرح آشنا نھیں ھے اس لئے کہ اس کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں نے جواب دے دیا تھا مگر جن لوگوں نے 1911 سے 1947 کا دور دیکھا ھے یا پڑھا ھے ان میں کوء ایسا نہ ھوگا جو ان کی خدمات سے واقف نہ ھو- 1906میں جب ال انڈیا مسلم لیگ کا ڈھاکہ میں قیام عمل میں آیا تو ظفر علی ایک پرجوش نوجوان کی حثیت سے پنجاب کی نمائندگی کررہا تھا اس کے بعد 1947 سیقیام پاکستان تک آزادی وطن اور اسلام کے لئے ھر تحریک میں قائدانہ حثیت سے نمایاں نظر اتا ھے- اللہ تعالی نے مولانا ظفر علی خان کو غیر معمولی صلاحتیں عطا فرماء تھیں وہ بیک وقت بے بدل ادیب، قادرالکلام شاعر، نڈر صحافی، بلند پایہ مترجم، بے باک عظیم صحافی، عاشق رسول، شعلہ بیان خطیب اور سچے وپکیمسلمان تھے لیکن انھوں نے اپنی تمام خوبیاں اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی اور آزاد وطن کے لئے صرف کیں اور ان خوش قسمت افراد میں سے تھے جھنوں نے اپنی زندگی میں آزاد وطن کا سورج طلوع ھوتے دیکھا ۔
ظفر علی اور ان کا عہد —— اسی عظیم المربیت کی حیات اور خدمات کے حوالے سے ضحیم کتاب ھے جسے ان کے ہمسایہ اور قریبی رفیق جو اوائل عمر میں ان کے پیروکار بن گئے تھے اس طرح وہ خود بھی اس عہد کی چلتی پھرتی تصویر بھی تھے جس پر انہوں نے قلم اٹھایا ھے یعنی حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ
زیر نظر کتاب میں حکیم صاحب نے ظفر علی خان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو منور کرنے کے لئے عنوانات قائم کئے ھیں اور اس حد تک معلومات فراہم کی ھیں کہ اس کے بعد ان کی زندگی کے کسی گوشہ بارے تشنگی نہیں رہتی ۔کتاب کے ابتداء ابواب میں مولانا کے خاندانی پس منظر کے ساتھ ساتھ ابتداء تعلیم ،کالج کا زمانہ اور والد کی رحلت کا تذکرہ ھے پھر مولانا کے والد مولوی سراج الدین کے انتقال کے بعد ظفر علی خان کا اپنے والد کی وصیت کے مطابق زمیندار جاری رکھنے کا فیصلہ تھا جس نے انہیں برصغیر کی صحافت میں ایک عظیم مجاہد کی حثیت سے متعارف کرایا۔مولانا ظفر علی خان نے صحافت کے میدان اور آزادی وطن کے لئے جو تاریخ ساز جدوجہد کی اسے پڑھ کر قاری عش عش کر اٹھتا ھے اس کتاب میں مولانا کی زندگی اور خدمات کو سمجنھے کے لئے مختلف زاویوں اور ان کا تجزیہ کرنے کی سعی کی گء ھے جس سے مولانا کی سیاسی زندگی ان کی شاعری کا
پس منظر مختلف تحریکوں میں ان کا کردار قائد اعظم اور علامہ اقبال اور دوسرے اکابرین سے تعلقات سمجھنے میں مدد ملتی ھے۔مسئلہ حجاز ، مایہ ناز فرزند علی گڑھ، قادیانیت، بدیہہ گوئ، دیہاتی زندگی ، تحریک پاکستان میں خدمات ،مسجد شہد گنج کے ابواب میں تو ایسی معلومات سامنے آتی ھیں جو پہلے سامنے نہ ائیں تھیں اور بعض ایسی نظمیں بھی ھیں جو پہلے کسی مجموعہ کلام میں نھیں ہیں بلکہ صرف زمیندار میں شائع ہوء تھیں مولانا کے علمی ادبی اور سیاسی معرکوں کو اس خوبصورت پیراے میں بیان کیا گیا ھے کہ قاری خود کو اس عہد سے گزرتا ھوا محسوس کرتا ھے ۔یہ کتاب جھاں مولانا کی جامع سوانح عمری ھے وھاں بیسویں صدی کے نصف اول کی سیاسی دینی اور ملی تاریخ بھی ھے ۔
مولانا ظفر علی خان ایک ھنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے ان کے بعض کارنامے نمایاں وقطعی ہیں تو بعض متنازعہ بھی چونکہ کتاب کے منصف مولانا کے رفیق رھے اور سب سے بڑے ماہر ظفریات اس طرح اس حوالے سے ان کی راے دلیل بن سکتی ھے اور یہ بات کہی جاسکتی ھے کہ اب تک چپھنے والی تمام کتب سے زیادہ جامع اور مستند ھے- یہ کتاب نہ صرف ہماری جدوجہد آزادی کی تاریخ کا منور باب ھے بلکہ اس مردمجاہد کی داستان حیات بھی ھے جس کی سب سے بڑی خوبی اسلام سے والہانہ محبت اور محمد عربی سے عشق رھا یہ داستان روحوں کو گرماتی اور دلوں کو تڑپاتی ھے الغرض یہ کتاب مولانا ظفر علی خان کی حیات خدمات کے ساتھ اس عہد کا جیتا جاگتا مرقع ہے جس میں عہد رفتہ کی لٹک کھٹک بھی ھے اور معاصرانہ چشمکوں اور سیاسی اویزوشوں کی کہانی بھی ھے مختلف تحریکوں کے مدوجزر، سیاسی نشیب وفراز اور لمحہ بہ لمحہ اتارچڑھاو بھی ھے صحافت و خطابت کی معرکہ ارائیاں بھی -ادب صحافت اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخ ساز لمحات کا حسین مرقع اور ایک عظیم شخصیت کے سوانحی نقوش اور خدمات کا دلآویز پیکر۔
قرب مکانی اور زمانی کی وجہ سے حکیم صاحب مولانا کے قریب رھے پھر نظریات وجذبات کی ہم آہنگی نے باہم پیوست رکھا یوں یہ کتاب اس تعلق کا بہترین ثمر ھے اور یوں حکیم عنایت اللہ نسیم عمر بھر تاریخ سازی کرتے رھے اپنی عمر کے آخری دور میں یہ تاریخ نگاری کا فریضہ بھی احسن انداز میں
سرانجام دیا یہ کتاب جو کہ بڑی تقطیع کے 516 صفحات پر مشتمل ھے پہلی بار 1985 میں شائع ھوء تھی اور عرصہ سے نایاب تھی اب اسے مولاناظفرعلی خان میموریل ٹرسٹ 21 سی نون ایونٹ مسلم ٹان لاھور نے خوبصورت انداز میں شائع کیا ھے تاکہ مولانا کے افکار اور جدوجہد کو نء نسل تک پہنچایا جاے جو ٹرسٹ کے مقاصد بھی ھیں اور قومی خدمت بھی ھے کتاب کا پیش لفظ نواب زادہ نصراللہ خان نے لکھا ھے جبکہ عرض ناشر کے عنوان سے چئیرمین ٹرسٹ خا لد محمود اور دیباچہ مجیب الرحمن شامی نے لکھا ھے اور خوب لکھا ھیمحمد شریف چشتی نے مصنف کتاب کا اچھے پیراے میں تعارف کرایا ھے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس کتاب کے حوالے سے لکھا ھے کہ حکیم صاحب نے اس کتاب کو نہ صرف اپنی معلومات تک محدود رکھا بلکہ جھاں سے قابل اعتماد مواد ملا اس کو بڑی سعی و کاوش سے جمع کرکے کتاب میں شامل کردیا حکیم صاحب نے بکھرے مواد کو یکجا کرکے بڑے قمیتی سرمایہ معلومات کو مخفوظ کردیا ھے ورنہ اس کے ضائع ھوجانے کا ڈر تھا یہ کتاب آئندہ کے محققین اور مصنفین کے لئے ماخذ کا درجہ رکھتی ھے اس کتاب کے مصنف نے آنے والے طالبان تحقیق کو منحت سے بچا لیا ھے–مجیب الرحمن شامی نے لکھا ھے کہ یہ کتاب پاکستانی تاریخ سیاست اور صحافت کے طلبہ کے لئے ایک تحفہ خاص ھے مولانا ظفر علی خان اور ان کے عہد کی جو تصویر حکیم نسیم صاحب نے کھنچی وہ کوء دوسراکھبی نہیں کھنچ سکتا تھا کہ ان کا علم کتابی نھیں تھا ،ان کے ذریعے ہم مولانا اور ان کے عہد میں سانس لے سکتے اور اسے ان کے لفظوں میں جیتا جاگتا دیکھ سکتے ھیں جبکہ خالد محمود نے اسے مولانا کے بارے معلومات کا قنیتی خزانہ قرار دیا ھے ایسی کتب تمام تعلیمی اداروں اور لائبیریا میں ہونی چاہئیے تاکہ نء نسل اپنے اکابر کے افکار اور جدوجہد سے روشنی حاصل کرے۔ خوبصورت طباعت سے مزین بڑی تقطیع 516 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ظفر علی ٹرسٹ 21 نون ایونیو مسلم ٹان لاھور فون نمبر 0423- 5846676 سے ایک ھزار میں دستیاب ھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں