Muhamd Asif Bhali 162

سیاستدان اور ضرب المثل اشعار

آصف بھلی

سیاست میں ہر سیاست دان اپنے مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ الیکشن میں سیاست دان اپنے مفاد اور مطلب کے لیے دن رات عوام سے اپنے رابطے بڑھا دیتے ہیں۔ ہر سیاست دان اور سیاسی جماعت ایک دوسرے سے بڑھ کر خو د کو ملک و قوم کا ہمددرد ثابت کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا لیکن جب الیکشن گزر جاتے ہیں تو یہی مطلبی سیاست دان اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے یوں غائب ہوتے ہیں جیسے دوبارہ انہوں نے کبھی عوام کی عدالت میں پیش ہو نا ہی نہیں۔ آج جب کہ ہر سیاستدان خود کو عوام کا تابع ،خادم ،فرماں بردار ،ملازم اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان ہی سیاست دانوں نے کل اپنے حلقہ کے ووٹر ز کو پہنچاننے سے بھی انکار کر دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام بھی ووٹوں کو بھیک مانگنے والے سیاستدانوں کی خدمت میں عبدالحی تاباں کا یہ شعرپیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آشنا ہو چکا ہوں میں سب کا
جس کو دیکھا سوا پنے مطلب کا
الیکشن کے بعد کا منظر یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنی گلی محلے یا گاؤں کے کسی کام کے لیے اپنے منتخب نمائندوں کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔ اوّل تو وہ اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کو ڈھونڈ نہیں پاتے ۔اگر یہ ارکان اسمبلی مل جائیں تو اُن میں الیکشن کے دنوں والا خلوص، محبت ،گرم جوشی اور اخلاق غائب ہو چکا ہوتا ہے۔ عوام اپنے کسی کام کے لیے اصرار یا تکرار کریں تو نام نہاد عوامی نمائندے اکثر اوقات بد مزاجی اور بعض اوقات بد زبانی پر بھی اتر آتے ہیں اور عوام کے لیے ان سیاست دانوں کو مخاطب کر کے درج ذیل شعر سنانے کے علاوہ او ر کوئی چارہ نہیں رہتا۔
اپنے قولِ وفا کو بھول گئے
تم تو بالکل خدا کو بھول گئے
عوام کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں افسر شاہی کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ کو ن سا سرکاری ادارہ ہے جو عوام کے ساتھ ظلم و ناانصافی سے پیش نہیں آتا ۔ کر پشن کے نا سُور نے سرکاری اداروں کو تباہ کر دیا ہے ۔بدعنوان افسر اور اہل کار کرپشن کی چُھری سے مظلوم عوام پر وار کرتے ہوئے کبھی ترس نہیں کرتے ۔عوام اپنی شکایات لے کر اپنے منتخب نمائندوں تک پہنچتے ہیں تو انہیں کبھی انصاف نہیں ملتا۔ الیکشن میں تھانہ کلچر کے نعرے بلند کرنے والے سیاستدان بعد میں ظالم اور رشوت خور محکمہ پولیس کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں ۔ پٹواری کی دھونس ، دھاندلی اور رشوت خوری کا عذاب بھی سیاست دانوں کی سر پرستی میں عوام کے سروں پر مسلط رہتا ہے۔ تمام صوبائی اور وفاقی سرکاری ادارے جتنی کرپشن کرتے ہیں ۔ایم این اے اور ایم پی اے حضرات اُس میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں اس لیے عوام ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ عوام چیختے اور چلاتے ہیں لیکن اُن کی چیخ و پکار صحرا کی آواز کی طرح اس لیے بے سود اور بے اثر ثابت ہوتی ہے کیوں کہ عوام کے منتخب حکمران
اپنے مطلب و مفاد کے لیے عوام کے بجائے افسر شاہی کے ساتھی اور رفیق بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں پھر عوام کو نظیر اکبر آبادی کے اس مشہور شعر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
عوام کی سادگی دیکھیے کہ جن عیار سیاستدانوں کے فریب میں آکر وہ اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ یہ سیاستدان عوام کی سادہ دلی اور بھولا پن کا کوئی ایک مرتبہ فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اپنے اپنے حلقہ میں ایک ہی ایم این اے اور ایم پی اے بوڑھا ہو جاتا ہے یا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو ان کا کوئی بھائی یا بیٹا اُن کی جگہ سنبھال لیتاہے ۔ سیاستدانوں کی مکاری اور سیاسی چالاکیاں اُن کے بچوں کو منتقل ہو جاتی ہیں اور عوام کی سادہ دلی اور مجبوریاں غریب عوام کے بچوں کو منتقل ہو جاتی ہیں ۔ عوام کے دکھوں کا مداوا ہمارے ملک میں اسی لیے نہیں ہو پاتا کہ عوام اپنی بیماریوں اور دکھ درد کے علاج کیلئے ان ہی نام نہاد مسیحاؤں کو باربار منتخب کرتے چلے جاتے ہیں جو در اصل ہماری تمام تر بیماریوں کے ذمہ دار ہیں ۔ میر تقی میر نے شاید ایسے ہی حالات کی ترجمانی کیلئے درج ذیل شعر کہا تھا۔
میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
یہاں میں یہ وضاحت کر دوں کہ میر تقی میر کے مذکورہ بالا شعر کے دوسرے مصرع کو زیادہ تر لوگ درج ذیل صورت لکھتے ہیں جو میر کے مصرعے کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
اب آتے ہیں سیاست دانوں کی ایک اور قبیل یا جِنس کی طرف ۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں میں وفاداریاں تبدیل کرنا ایک مستقل عارضہ ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیںکسی اصولی اختلاف کی بنیاد پر تبدیل نہیں کی جاتیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے یا دیگر کسی وقتی مفاد کیلئے کوئی بھی سیاستدان کسی بھی وقت اپنی جماعت سے بے وفائی کر سکتا ہے ۔ نہ کوئی سیاستدان جماعتی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت بار بار وفاداریاں بد لنے والے سیاسی مسافروں کو قبول کرنے اور انہیں اپنا انتخابی ٹکٹ دینے میں کسی اصول پسندی کا مظاہر ہ کرتی ہے ۔تاہم کچھ بدقسمت سیاستدان ایسے بھی ہیں کہ جن کو بدنامی کی حد تک سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا مجرم قرار دے کر کوئی بھی سیاسی جماعت قبول نہیں کرتی ۔ ایسے بدنام سیاستدانوں پر میر تقی میر کا ہی ایک شعر صادق آتا ہے۔
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت ِ سادات بھی گئے
اب ذکر کچھ ہارنے والے امیدواروں کا ہو جائے۔ شکست سے دوچار ہونے والے اکثر سیاستدان محمد یار خاں میرؔ کے درج ذیل شعر سے اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دِل ناتواں نے خوب کیا
جو امیدوار چند ووٹوں سے ہار جاتے ہیں ۔اُن کی زبان پر قائم چاند پوری کا یہ شعر ہوتاہے۔
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
اردو کا ایک اور ضرب المثل شعر ہے جو شکست کھانے والے امیدواروں کے حامی اکثر اپنے دلوں کو تسلی دینے کے لیے استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھنٹوں کے بل چلے
سیاست میں ایک دوسرے پر الزام تراشی آجکل کا معمول ہے۔ بعض اوقات یہ الزام تراشی گالی گلوچ اور قابلِ اعتراض زبان کی حد تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ گالی گفتار سے کام لینے والوں کا مہذب انداز میں جواب دینے کے لیے سیاست دان اپنی تقاریر میں حیدر علی آتش کے درج ذیل شعر سے کام لے سکتے ہیں۔
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بِگڑا
منتخب ہونے کے بعد سالوں تک اپنے حلقوں سے غائب رہنے والے ایم این اے یا ایم پی اے الیکشن کے موسم میں برساتی مینڈکوں کی طرح پھر وار د ہو جاتے ہیں تو ادبی ذوق رکھنے والے ووٹرز ایسے امیدواروں کا غالب ؔ کے اس شعر کے ساتھ استقبال کرتے ہیں۔
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
سیاستدانوں کے اصلی چہرے کچھ اور ہوتے ہیں لیکن الیکشن کے دنوں میں انہوں نے اپنے چہروں پر مصنوعی چہرے سجا رکھے ہوتے ہیں ۔ بادہ خوار بھی اپنے آپ کو ولی اور پرہیز گار کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ بے نماز مسجدوں میں جا کر با جماعت نماز ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کے عادی خدا کو گواہ بنا کر خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو عام حالات میں سلام کا جواب دینا گوارہ نہیں کرتے وہ ووٹرز سے ہم آغوش ہو کر اُن کے ماتھوں کا بوسہ لے رہے ہوتے ہیں ۔ایسے سیاستدانوں کی تعریف غالب نے اپنے ایک شعرمیں کچھ اس طرح کی ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا
آخر میں ان سیاستدانوں کی نذر ایک شعر جو اپنے ووٹرز کے خلوص ، نوازشات ، مہربانیوں اور عنایات کے بدلے میں عوام کو صرف بے وفائی اور بد عہدیوں کا تحفہ دیتے ہیں۔
آپ ہی اپنے ذرا جورو ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں