109

جان کاشمیری

طلوع زار اردو کے معتبر و ممتاز شاعر جان کاشمیری کا مجموعہ کلام ہے جو اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے اور میری سوچوں میں نئی فکر کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ جب سے اس مجموعے کی ورق گردانی شروع کی ہے، عجیب سرشاری کی کیفیت میں ہوں اور جہانِ حیرت کی وادیوں میں سفر کر رہا ہوں۔
ان کے مطبوعہ شعری اثاثے میں بہت سی کتابوں کا اضافہ ہو چکا ہے جن میں طلوع زار بھی ان کے دیگر مجموعوں کی طرح نایاب شمار کیا جائے گا۔ موجودہ وقت نے اس مجموعے کی افادیت اور بڑھا دی ہے کہ ان کی شاعری بار بار مطالعہ کی متقاضی ہے۔ یہ قاری سے ایک خاص مرتبے کی حامل کمٹمنٹ کا تقاضا کرتی ہے۔ جان کاشمیری ایک خاص ذوقِ شعری رکھنے والے سخن دوست ہے، انہوں نے ہمیشہ وحشت زدہ ماحول میں اپنے قلم سے نکلنے والی چنگاریوں سے محبت کے نغمے تحریر کیے۔ وہ سونے کے ورق پر چاندی کے لفظ سجا کر محبت کا درس دیتے ہیں۔
کوئی سونے کا نہ چاندی کا ورق دیتے ہیں
ہم زمانے کو محبت کا درس دیتے ہیں
اک روزمیں نے ان کے دولت کدہ پر حاضری دی تو دیکھا کہ جان صاحب کی رہائش گاہ کے ساتھ خالی پلاٹ میں گلاب کے پتے سوکھے ہوئے پڑے ہیں اور جان صاحب گلاب کے ان راکھ ہوئے پتوں پر تتلیوں کو سجدے کی حالت میں دیکھتے ہی پوشیدہ رازوں کے کھوج میں مگن ہو جاتے ہیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد جب جان صاحب نے مجھے اپنا یہ شعر سنایا تو میں حیران ہو گیا کہ ان کی سوچ اور ان کا مشاہدہ کتنا جاذبِ نظر ہے کہ وہ صنفِ نازک کے راکھ کی ڈھیری پر سجدے اور گلابوں کے قتل پہ کیا خوبصورت تخلیقی اظہار کر رہے ہیں۔
تتلیاں سجدہ کریں راکھ کی جس ڈھیری پر
اس کا مطلب ہے وہاں قتل گلابوں کا ہوا
جان کاشمیری اپنے آج اور کل سے خوب واقف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ باہر کی دنیا سے اندر کی دنیا کو بہت مختلف روپ میں دیکھتے ہیں کیوں کہ لامکاں تو اندر ہی ہو سکتا ہے،
لا مکاں کی مری آنکھوں میں لگی ہے پتلی
مجھ کو پل میں نظر آتے ہیں زمانے سو سو
جان کاشمیری کے ہاں وقت اور زمانہ ایک مخصوص تناظر میں اپنا جلوہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ تبھی تو وہ طلوع زار کی صورت میں اپنی شاعری میں روشن دکھائی دیتے ہیں۔ با خدا یہ شخص اتنا فراخ دل ہے کہ کسی کے دل دکھانے پہ بھی معذرت کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
ضرورت ہم نے پوری با خدا حسبِ سکت کر لی
کسی کا دل لیا ہنس کر، کسی سے معذرت کر لی
طلوع زار میں شامل غزلیات میں جو فن سے سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے وہ پیکر نگاری کا فن ہیں۔ جذبے، خیال، تصور یا محسوسات کو پیکر نگاری کے ذریعے انہوں نے کچھ اس طرح برتا ہے کہ ہم ان کے شعر کو محض شعر نہ کہہ کر جذبات و محسوسات کا مرقع کہہ سکتے ہیں۔ اس شعری مجموعے کا دیباچہ دورِ حاضر کے مقبول تنقید نگار اکرم کنجاہی کا تحریر کردہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ جان کاشمیری نے قاری کو جس جمالیاتی کائنات سے آشنا کیا ہے، وہ فکری اعتبار سے محدود نہیں، وسیع، ہمہ گیر اور بسیط ہے۔ جمالیاتی تپش بھی ان کے سوز و گداز کا اہم سبب ہے کہ وہ سبزے کے لہلہانے میں بوڑھی زمین کی بھی امنگ دیکھ لینے والا شاعر ہے۔
جان کاشمیری ہر اس سچی پر بات پر یقین رکھتے ہیں جو حق وصداقت پہ مبنی ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ سچ بولنے سے عاری نظر آتے ہیں اور جھوٹ بولنے میں باکمال ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے جان صاحب کی غزل کا ایک مطلع ہی کافی ہے ۔
بات سچی جو کروں اس کو برا لگتا ہے
بولنا جھوٹ مجھے ایک سزا لگتا ہے
تغزل دراصل جذبے اور مشاہدے کی شدت کا نام ہے اور جان صاحب کی غزلیں اس کی شاہد ہیں کہ انہوں نے جدید دور میں اپنی شاعری میں نئی نئی علامتوں، تشبیہوں، استعاروں اور کنایوں کو ایک نئے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے جو ہر آنے والی نسلِ نو کے لیے رہنمائی کا سبب بنے گا کیوں کہ جان کاشمیری استاد الشعرا کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں، وہ ماہرِ عروض بھی ہیں اور انہیں اپنی بات کو نہ صرف کہنے بلکہ منوانے کا بھی ڈھنگ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزل کو یک رخا رکھنے کی بجائے اسے زندگی کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری کا صحیفہ بنایا اور یہی جان کاشمیری کا کمال ہے جو انہیں دیگر شعرا میں باکمال ہونے کی سند عطا کرتا ہے۔ طلوع زار کا انتساب انہوں نے پروفیسر نائلہ بٹ کے نام کر رکھا ہے ۔ نائلہ بٹ خود بھی بہت اچھی خاکہ نگار، نقاد اور شاعرہ ہیں، وہ اپنے فن سے زیادہ اپنی پرکشش شخصیت کا سہارا لیتی ہیں۔ بہرحال جان کاشمیری کی جانب دوبارہ لوٹتے ہوئے ان کے فرقت کے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے آپ کو بھی اس لطف میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ:
میری فرقت میں کہیں مر ہی نہ جائے یارو
جائو کمرے سے اٹھا لائو مری تنہائی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں