311

ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ

ساجد حسین ملک

مجھے پہلے جناب علامہ عبدالستارعاصم کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ وہ اپنے اشاعتی ادارے قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل لاہور کے زیر اہتمام طبع کردہ کتب گاہے گاہے بھیجواتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی کرم فرمائی ہے کہ وہ میرے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ مجھے کتابوں کے مطالعہ کا شوق ہے۔ میں ان کی قدر افزائی پر ان کا ممنون ہوں، تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ کتابوں کے مطالعے کے لیے جس لگن ، توجہ، محنت، ایک خاص حد تک جسمانی توانائی اور زیر مطالعہ کتاب یا کتابوں کے مندرجات اور نفسِ مضمون کو سمجھنے، پرکھنے اور اپنے اندر سمونے اور اس کے ساتھ وقت کی بہ افراط دستیابی کی ضرورت ہوتی ہے، بلاشبہ میں اپنے اندر اس کی کمی اور فقدان پاتا ہوں۔ سچی بات یہ ہے اس تمہید کا مقصد اپنی خود نمائی یا کسرِ نفسی نہیں بلکہ حقیقت حال کا اظہار ہے۔ اس صورت میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کی دقیع، وسیع المفہوم اور زندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی جامع تصنیف ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ کے بارے میں کچھ لکھنا واقعی ایک مشکل امر ہے۔
ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ ایک ایسی تصنیف ہے جسے قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر چھپا ہوا کتاب کا عنوان ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ.. زندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ایک علمی اور تاریخی دستاویز یقینا خاصا طویل ہے۔ اس میں مکالمے کا لفظ جلی حروف میں چھپا ہوا ہے جس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ کتاب کا عنوان صرف مکالمہ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم کتاب کا جوعنوان سرورق پر دیا گیا ہے، طویل ہونے کے باوجود بڑا جامع اور پرمنعی ہے کہ اس میں ڈاکٹر وقار ملک کے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے کم و بیش 25 برسوں کے طویل عرصے کے دوران کیے جانے والے مکالموں کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ جو اس سے قبل روزنامہ الااخبار، ہفت روزہ حرمت، ہفت روزہ زندگی اور روزنامہ پاکستان جیسے موقر اخبارات اور جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ یہ مکالمے /کالم وسیع الفہوم ، متنوع اور جامع موضوعات اور دور حاضر کے معاملات و مسائل اور حالات و واقعات کو اپنے اندر اس طرح سمیٹے ہوئے ہیں کہ ان کے بارے میں سرورق پرزندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ایک علمی اور تاریخی دستاویز جیسی تعارفی سطر تحریر کرنا ہر لحاظ سے موزوں، مناسب اوربر محل لگتا ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کی اس کاوش کی تحسین کی جانی چاہیے کہ انھوں نے جناب ایس ایم ظفر سے ربع صدی پر پھیلے طویل عرصے کے دوران کے کیے جانے والے مکالموں کو بڑی عرق ریزی، جانفشانی اور محنت کے ساتھ مختلف موضوعات کے تحت تقسیم کرکے کتاب میں شامل کیا ہے۔
کتاب کے بارے میں مزید لکھنے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جناب ایس ایم ظفر کے بارے میں ذہن کے نہاں خانے میں موجود کچھ یادوں اور باتوں کو تازہ کروں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایس ایم ظفر (سید محمد ظفر) کا نام میں نے پہلے پہل پچھلی صدی کے 60 کے عشرے کے وسط کے برسوں (غالبا 1965) میں سنا تھا جب انہوں نے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل (بعد میں فیلڈ مارشل) ایوب خان کی کابینہ میں نسبتا ایک کم عمر وزیر کی حیثیت سے بطور وفاقی وزیر قانون منصب سنبھالا تھا۔ یہ حسنِ اتفاق تھا یا اس کی کچھ اور وجہ تھی کہ ان سے قبل لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے نوجوان قانون دان شیخ خورشید احمد وفاقی وزیر قانون کے منصب پر فائز تھے۔ ان کا انتقال ہوا تو اس منصب کی پیش کش جناب ایس ایم ظفر کو کی گئی جنہوں نے اسے قبول کر لیا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان سے قبل لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے نامور قانون دان شیخ منظور قادر مرحوم بھی صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قانون کے منصب پر فائز رہے تھے۔ صدر ایوب خان نے 1958 میں اپنے نافذ کردہ مارشل لا کے نتیجے میں 1956 کے آئین کو منسوخ کیا تو ملک کے لیے ایک نئے آئین کی تیاری ان کے لیے ایک مجبوری تھی۔ چنانچہ ایک نیا آئین تیار کیا گیا جو جون 1962 میں نافذ ہوا، اسے 1962 کے آئین کا نام دیا گیا جس کی تیاری میں شیخ منظور قادر نے بطور وزیر قانون اہم حصہ لیا۔ شیخ منظور قادر وفاقی وزیر قانون کے عہدے سے فارغ ہوئے یا فارغ کیے گئے تو انہیں مغربی پاکستان ہائی کورٹ (اس وقت تک متحدہ پاکستان قائم تھا جو دو صوبوں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مشتمل ہوا کرتا تھا) کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔
ایس ایم ظفر کا ذکر کریں تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کا معاملہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا گیا تو اس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو اگر چہ صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے ان کی بجائے وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر کو بھیجا گیا (اس بات کا ذکر اس کتاب میں بھی موجود ہے)۔ جناب ایس ایم ظفر نے پاکستانی وفد کی بڑی کامیابی اور محارت سے قیادت کی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر پاکستان کی طرف سے دستخط بھی کیے۔
ایس ایم ظفر کے بارے میں ذہن کے نہاں خانے میں جھانکوں تو کئی اور باتیں بھی یاد آتی ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ایک ممتاز اور نامور قانون دان کی تو تھی ہی، اس کے ساتھ ہی اپنے دور کی نامور گلوکارہ محترمہ ملکہ پکھراج کا داماد ہونا بھی ان کی شہرت کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ملکہ پکھراج کی دوسری صاحبزادی اور اپنے دور کی نامور گلوکارہ محترمہ طاہرہ سید بھی رشتے میں ایس ایم ظفر کی خواہر نسبتی لگتی ہیں۔ یہ رشتہ داری بھی کسی نہ کسی حد تک ایس ایم ظفر کے لیے شہرت کا ذریعہ سمجھی جا سکتی ہے۔ خیر رشتہ داری یا وجہ شہرت کا یہ پہلو کتنا اہم یا غیر اہم ہے، اس سے ہٹ کر جناب ایس ایم ظفر کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک نامور اور ممتاز قانون دان ہونے کے علاوہ ایک سنجیدہ خو دانشور، ایک سچے، مخلص اور محب وطن پاکستانی اور ایک نمایاں سیاسی ، سماجی اور علمی شخصیت کے طور پر قومی زندگی میں معروف چلے آرہے ہیں تو کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا۔ وہ مرحوم پیر پگاڑہ کی مسلم لیگ میں نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے تو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ ق کے مرکزی قائدین میں بھی شامل رہے ہیں۔ اس دوران انہیں سینیٹ آف پاکستان میں بطور سینیٹر نمائندگی کا موقع بھی وقتا فوقتا ملتا رہا۔
جناب ایس ایم ظفر کی شخصیت کے یہ سارے پہلو، ان کے یہ سارے مناصب اور ان کی یہ ساری حیثیتیں ان کے لیے وجہ افتخار سمجھی جا سکتی ہیں لیکن ان کی ایک سچے، مخلص اور دردمند پاکستانی کی حیثیت، ایک نمایاں اور ممتاز قانون دان کا مقام اور ایک صاحب الرائے اور صاحب بصیرت دانشور ہونا ان کی تمام حیثیتوں اور ان کی شہرت کے اسباب پر حاوی گردانا جا سکتا ہے۔ جناب ایس ایم ظفر کی ہمہ پہلو اور متنوع شخصیت کے بارے میں کچھ اور باتیں بھی لکھی جا سکتی ہیں لیکن واپس کتاب کی طرف آتے ہیں۔ جیسے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ مصنف نے ایس ایم ظفر سے اپنی گفتگو اور مکالموں پر مشتمل اپنے کالموں کو جو مختلف اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں، اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ ان میں سے بعض کے آخر میں اگرچہ اخبار یا جریدے کا نام اور تاریخ اشاعت بھی لکھی ہے لیکن یہ کالم یا مکالمے تاریخی ترتیب سے کتاب میں شامل نہیں کیے گئے بلکہ مختلف موضوعات اور عنوانات کے تحت ان کو تقسیم کیا گیا ہے۔ ان عنوانات میں حالات زندگی، تصور پاکستان، انسانی حقوق / حقوق نسواں ، عدلیہ ، جمہوریت ، مذہب، سائنسی امور، مسئلہ کشمیر / پاک بھارت تعلقات، مسئلہ فلسطین /اسرائیل ، بین الاقوامی امور، اہم قومی مسائل ، دہشت گردی، کالاباغ ڈیم، ذرائع ابلاغ، طنز و مزاح، تفریح اور متفرق عنوانات شامل ہیں۔ ان عنوانات کی کل تعداد 17 بنتی ہے تو ان کے تحت یا ان کی ذیل میں آنے والے مکالموں یا کالموں کی تعداد 159 ہے۔ بلاشبہ یہ انتخاب جہاں انتہائی چشم کشا ہے وہاں پڑھنے والوں کے علم و آگاہی میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے بلکہ ان کے لیے سوچ ، سمجھ، شعور اور دانش و بصیرت کے نئے زاویے بھی وا کرتی ہے۔ اس سے پڑھنے والوں کا اسلام اور اسلام کی تعلیمات سے لگائو، پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت، ملی قومی اور تاریخی روایات و اقدار کی پاسداری اور باہمی روابط میں مثبت رویوں کے اظہار کو فروغ دینے کی جہاں حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہاں پڑھنے والوں پر ان کالموں کے گہرے اثرات مرتب ہونے کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔
ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ کے عنوان سے 672 صفحات اور 8 صفحات پرپھیلی نادر تصاویر پر مشتمل یہ کتاب اپنے ظاہری حسن، خوب صورت گیٹ اپ، پرکشش سرورق، مضبوط جلد اور غلطیوں سے مبرا چھپائی کے باعث بلاشبہ تحسین کی مستحق ہے۔ اس کے لیے اشاعتی ادارے قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل والٹن روڈ لاہور اور اس کے مہتمم علامہ عبدالستار عاصم کی جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہوگی کہ وہ ایک ایسی تصنیف سامنے لائے ہیں جس میں بیک وقت علم و معلومات کا خزینہ تاریخ کا مطالعہ، تہذیب کا شعور اور حالات و واقعات کی منظر کشی نظر آتی ہے۔ آخر میں مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں اس ضخیم کتاب کا پوری طرح مطالعہ نہیں کر سکا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے، اس نے میرے دل کے تاروں کو چھوا ہی نہیں بلکہ میرے علم و آگاہی میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے محترمہ بشری رحمان مرحومہ نے جو تبصرہ کیا ہے اور جس کا ایک اقتباس کتاب کے بیک ٹائٹل پر چھپا ہوا ہے بلاشبہ پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں انہوں نے محترم ایس ایم ظفر کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر وقار ملک کی بھی کھلے الفاظ میں تعریف کی ہے کہ وہ اس طرح کی ایک قابل قدر تصنیف سامنے لے کر آئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں