166

ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

اخلاق حیدر آبادی

اظہار احمد گلزارعہد حاضر کے معروف تغزل گو شاعر، بے مثل ادیب، منفرد افسانہ نگار، باکمال کالم نگار اور صاحبِ طرز سیرت نگار ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کا تنقیدی شعور اور محققانہ زاویہ نگاہ بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ انہیں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی متعدد اصناف ادب میں یکساں عبور اور گرفت حاصل ہے۔ ان کے والد محترم اور تایا حضور کا شمار اردو ادب کے ممتاز ادبا میں ہوتا ہے۔ ان کا جدا گانہ اسلوب نگارش ان کی پہچان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں یہ صلاحیت اور وصف اپنے اسلاف سے ہی ورثے میں ملا ہے جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ 15 جولائی 1966 کو ممتاز افسانہ نگار رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی کے گھر فیصل آباد ، پاکستان کے ایک نواحی گاں چک نمبر87 گ بے میں پیدا ہوئے۔ سادہ طبعیت اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاں سے حاصل کی اور پھر نواحی چک 208 ر – ب لمبا پنڈ سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد فیصل آباد شہر منتقل ہو گئے اور گورنمنٹ ایم سی ہائی اسکول کوتوالی روڈ فیصل آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹر اور گریجویشن تک کی تعلیم پنجاب کے دوسرے بڑے کالج گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے پاس حاصل کی۔ اس کالج نے بلاشبہ ہر شعبہ زندگی میں بڑے بڑے نام پیدا کیے۔ اس کالج سے فارغ التحصیل ہونے کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ان کے ادبی ذوق اور شعری شعور کو خوب جلا ملی۔ اس وقت اس کالج میں اعلی ادبی ماحول پایا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پروفیسر عصمت اللہ خان پڑھاتے تو ان کی باتوں سے شعر وارد ہوتے چلے جاتے جو طلبا کے ذہنوں میں راسخ ہوتے چلے جاتے۔ علاوہ ازیں، پروفیسر منظر مفتی، پروفیسر شوکت علی قمر، پروفیسرغلام رسول شوق، پروفیسر خالد عباس بابر، پروفیسر عبد الرحمان شاکر اور پروفیسر محمد صدیق ناگی جیسے قابل اساتذہ نے بھی ان کے ادبی ذوق کو خوب جلا بخشی۔ کالج کے ادبی ماحول اور معروف اساتذہ کے زیر تربیت رہ کر انہوں نے شاعری میں جب باقاعدہ طبع آزمائی کی تو روایتی انداز سے ہٹ کر جدید انداز اپناتے ہوئے ایک نیا اور منفرد لہجہ سامنے لائے۔
اظہار احمد گلزار نے اپنا تعلیمی سفر کہیں نہیں روکا۔ آگے بڑھنے کی جستجو نے انھیں کہیں پڑا نہ کرنے دیا۔ انہوں نے اپنے ادبی ذوق کو تقویت دینے کے لیے پہلے پنجابی زبان و ادبیات میں اور پھر اردو زبان و ادبیات میں ماسٹرز کر کے اردو کی تاریخ اور سخن وری کو سمجھنے کی خوب کوشش کی۔ اس کے بعد انہوں نے سیاسیات اور اسلامیات میں بھی ماسٹرز کے امتحانات پاس کیے۔ ان کا تعلیم سے عشق اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ اظہار احمد گلزار نے یہاں بھی رکنا مناسب نہ سمجھا بلکہ ساتھ ساتھ ہی بی- ایڈ کا امتحان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پاس کیا۔ ادبیات کا ایک طالب علم اور سخن فہم ہوتے ہوئے انہوں نے ایم فل اردو میں داخلہ لے لیا یہاں انھوں نے اپنا مقالہ معروف شاعر نور محمد نور کپور تھلوی کی شخصیت اور فکر و فن پر لکھ کرایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
اظہار احمد گلزار کے والد صاحب ان کی علم دوستی پر نازاں رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اظہار کے علم کے ذریعے سے اس کا اظہار لوگوں پر ہو گا۔ ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ ان کے والدین کی دعائیں رنگ لائیں۔ انہوں نے اردو اور پنجابی زبان و ادبیات کا وسیع مطالعہ کیا۔ مسلسل جستجو ، لگن اور ادبی ذوق نے انہیں آگے بڑھنے کے لیے ہمیشہ مائل رکھا۔ ان کو جب پی ایچ ڈی (اردو) میں ایڈمیشن کے لیے فیصل آباد کی جی سی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملا تو انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اسی سال پی ایچ ڈی میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے لاہور کا رخ کیا اور لاہور کی ایک معروف لاہور گیریژن یونیورسٹی میں اسی سال داخلہ مل گیا، ۔یہاں سے انہوں نے اردو زبان و ادبیات میں پی ایچ ڈی اردو کی ڈگری کے حصول کے لیے فیصل آباد کی ادبی تاریخ کے عنوان سے 600 صفحات پر ضخیم مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنے اس تمام تر سفر میں ڈی ایچ ایم ایس (ڈاکٹر آف ہومیو پیتھک) کا امتحان پاس کرنے کے علاوہ میڈیکل ٹیکنیشن اور میڈیکل فارمیسی کے امتحانات بھی پاس کیے جس کی بنا پر انہوں نے اسی شعبہ میں ایک عرصہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیے۔
اظہار احمد گلزار کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ ان کے والد گرامی رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی ایک سرکاری ملازم تھے جنہوں نے اپنی انتھک محنت، لگن، اخلاص اور ایمانداری سے روزگار کما کر اپنی اولاد کی بہتر پرورش کی۔ ان کی سارے بیٹے تعلیم یافتہ ہیں اور باعزت روزگار کما کر ملک و ملت کی خدمت کرتے ہوئے اپنے والدین کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کا ایک بھائی محمد عامر گلزار چارٹرڈ اکانٹنٹ ہے اور سعودی عرب میں اپنی فرم بنا کر باعزت روزگار کما رہا ہے اور وہ بہت سے رفاہی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اور وہ اپنے والد گرامی کے نام پر گلزار فانڈیشن کے ذریعے مستحقین کی امداد کا ایک رفاہی پلیٹ فارم بنا کر مستحسن کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کے دوسرے بھائی آفتاب احمد گلزار اور امجد گلزار بھی کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
اظہار احمد گلزار کے آبا اجداد کا تعلق ریاست کپور تھلہ، ضلع جالندھر سے تھا۔ تقسیم ھند کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع لائل پور (فیصل آباد) کے ایک گاں چک نمبر87 گ ب میں آباد ہو گیا جہاں ان کے آبا اجداد کو زمینیں آلاٹ ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی کے نامور شاعر اور محقق سید تنویر بخاری کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہیں۔ اظہار احمد گلزار کو کالج میں پڑھتے ہوئے شعرو ادب سے شغف پیدا ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ فروغ پاتا رہا۔
اظہار احمد گلزار کی اولین تخلیقات پنجابی میگزین لہراں اور لکھاری میں شائع ہوئیں ۔۔اس کے ساتھ ساتھ فیصل آباد اپنے وقت کے ایک مقبول مقامی روزنامہ عوام میں ان کے کالم اور مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ ان کے والد گرامی رانا محمد گلزار کپور تھلوی بھی مقامی اخبارات میں کالم، مضامین اور کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ اپنے ابا جان کو لکھتے دیکھ کر یہ بھی کالم اور مضمون لکھنے دیکھ کر یہ بھی نثر کی جانب مائل ہوئے۔ ان کے تایا جان نور محمد نور کپور تھلوی بھی اردو اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے جو فیض احمد فیض کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان سے متاثر ہو کر شاعری کرنے لگے، اظہار احمد گلزار ایک ہمہ صفت اہل قلم ہیں جو شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ، کالم، تنقید، تحقیق، خاکہ نگاری اور سیرت نگاری میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم دراصل مجموعی زوال کے عہد سے گزر رہے ہیں۔ ہر شعبہ سے لوگ رخصت تو ہو رہے ہیں لیکن شامل نئے لوگ نہیں آ رہے۔ مصوری ہو یا گلوکاری، شاعری ہو یا ناول اور افسانہ، صدا کاری ہو یا ادا کاری ، ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔ ادب کے سچے خادم اب خال خال رہ گئے ہیں۔ کتابیں اتنی زیادہ تعداد میں نہیں شائع نہیں ہوتیں۔ شائع اگر ہوتی بھی ہیں تو ان کی بازگشت چند دنوں تک سنائی دیتی ہے۔ اب یہ حال ہے کہ نہ وہ بیٹھکیں رہیں، نہ قہوہ خانے آباد ہیں۔ مشاعروں کی تعداد کم پڑ گئی ہے۔ اگر ہوں بھی تو ان میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ شاعری بعد میں شروع کرتے ہیں، شعری مجموعہ پہلے شائع کرا لیتے ہیں۔
کہتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نوبت آئی کہ ادب ہماری ترجیحات سے نکل گیا، شاعری کے افق پر اکثریت ایسے شاعروں کی ہے، جن کا شاعری سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔ ۔شاعری کے نام پر مزاحیہ شاعری کو فروغ دیا گیا تو مشاعرے زوال کا شکار ہوگئے۔ معاشرے میں کتاب کلچر کے بجائے برگر کلچر نے فروغ حاصل کیا اور لوگوں نے فکر کی بجائے شکم پر توجہ دینا شروع کر دی۔ ادبی اداروں کی صورتِ حال بھی کم و بیش ایسی ہی ہے، حکمرانوں کے پاس ہر شعبہ کے لیے فنڈز موجود ہیں لیکن ادبی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
وہ شاعری میں کسی نظریہ کے قائل نہیں۔ کہتے ہیں جو احساس خود میں جذب کر لے وہ ان کے ہاں شعر میں ڈھل جاتا ہے۔ جو کچھ دیکھتے ہیں، جو حالات رہے اور جو کچھ ان پر گزرا، رقم ہوتا رہا۔
اردو غزل کا مستقبل ان کے مطابق روشن ہے، ان کا کہنا ہے کوئی کچھ بھی کر لے، کتنی ہی مخالفت کر لے، یہ صنف باقی رہے گی کیوں کہ اس کی بنیاد بے حد مضبوط ہے۔ ان کا یقین ہے کہ غزل عصری تقاضوں کے بدلتے رجحانات کا بوجھ اٹھا سکتی ہے، ان کے بقول غزل کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے اندر اپنا پورا عہد سمیٹ لیتی ہے۔ ردیف، قافیہ اور بحر کی شرائط کی وجہ سے لفظوں کے موتی چنے جاتے ہیں اور بہترین صورت کا اظہار ہوتا ہے۔
وہ اس سوچ سے متفق ہیں کہ ادب گھاٹے کا سودا ہے۔ تخلیق کار شعر کہتا ہے، مجموعہ تیار کرتا ہے، خود ہی چھپواتا ہے اور خود ہی تقسیم کرتا ہے۔ اس تمام ترعمل سے جو تسکین اور سکون اسے ملتا ہے، بس وہی شاعر کا منافع ہے۔
انہوں نے کچھ عرصہ ریڈیو پر صداکاری بھی کی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صداکاری ایک خداداد صلاحیت ہے جو جیتے جاگتے پیکر تراشتی ہے، مثلا میری آواز کو سن کر اکثر لوگ مجھے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا حامل سمجھتے تھے مگر معاملہ اس کے برعکس تھا۔ صداکاری کو ریاضت سے بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ صلاحیت کسی میں پیدا نہیں کی جا سکتی۔ صداکاری میں ان کے استاد احسن سید اور جمشید ایوب ہیں، ان دونوں شخصیات سے اس شعبہ میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے، آواز کا زیرو بم اور جملے کی ادائیگی ان کی دین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صداکاری میں لطف ہی اتنا ہے کہ بندہ اس میدان سے باہر نہیں نکل سکتا۔
اظہار احمد گلزار کے خانوادے میں شعر و ادب سے دلچسپی اور اس کی سرپرستی کی روایات بڑی راسخ ہیں۔ ان کی رگوں میں مایہ ناز قلم کاروں اور ادیبوں کا خون دوڑ رہا ہے۔ ان کے والد جناب رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی ایک مایہ ناز افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔ تایا جان جناب نور محمد نور کپورتھلوی کا شمار بھی اردو اور پنجابی کے قادر الکلام شعرا میں ہوتا تھا اور وہ فیض احمد فیض کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
کالم نگاری کے حوالے سے اظہار بھی مشکل ہے کے نام سے ان کے کالم روزنامہ امن فیصل آباد اور روزنامہ ملت فیصل آباد کی زینت بنتے رہے ہیں۔ اخبار جمہوریت پسند میں ایک عرصہ تک ادبی صفحہ گلزارِ ادب ترتیب دیتے رہے ہیں۔ ان کے پنجابی افسانوں کا مجموعہ سوچاں بھرن کلاوے، نورمحمد نور کپور تھلوی ۔۔۔شخصیت اور فن، کلیات نور، فخر کائنات (سیرت النبی ۖ ) ، سارا عالم ہے منور آپۖ کے انوار سے (غیر مسلم شعرا کا نعتیہ کلام ، تحقیق)، دل جس سے زندہ ہے (انتخاب نعت)، زمانے میں چمکا ہے نام محمدۖ (شرح اسمائے النبیۖ ) اور تقاریر کا مجموعہ گلزار تقاریر شامل ہیں۔
ان کو ملنے والے ایوارڈز میں قائداعظم گولڈ میڈل، بیسٹ پرفارمنس گولڈ میڈل، بری نظامی ایوارڈ، پنجابی سیوک ایوارڈ، قائداعظم ٹیلنٹ ایوارڈ، میاں محمد بخش ایوارڈ، پنجاب ٹی وی ایوارڈ ، پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ فیصل آباد، نور کپور تھلوی ادبی ایوارڈ، سید وارث شاہ ادبی ایوارڈ اور انجمن فقیرانِ مصطفی ۖ سیرت ایوارڈ شامل ہیں۔ وہ پاکستان رائٹرز گِلڈ، حلقہ اربابِ ذوق فیصل آباد کے رکن اور نورکپور تھلوی ادبی فورم کے چیئرمین ہونے کے علاوہ دیگر کئی علمی، ادبی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔۔
لکھنا، پڑھنا اظہار احمد گلزار کا اوڑھنا بچھونا ہی نہیں بلکہ ان کی سانسوں کے زیر و بم میں سمایا ہوا ہے۔ وہ جب بھی ملتے ہیں ایک زندہ اور زندہ دل شخصیت کے طور پر ملتے ہیں اور ان سے ہر ملاقات میں ایک پرجوش، ولولہ انگیز، جرات آمیز اور ایک متحرک شاعر اور نثر نگار سے ملاقات ہوتی ہے۔ انہوں نے لکھنا، لکھانا، پڑھنا، پڑھانا محض مشغلہ دل کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ سماجی اور معاشرتی مسائل کی الجھتی ہوئی ڈوروں کو سلجھانے کی طرف بھی توجہ دی ہے۔
اس مادی اور موقع پرست دنیا میں کوئی آدرش رکھنا اور اس پر حوصلہ مندی کے ساتھ قائم رہنا ایک مشکل کام ہے۔ اظہار احمد گلزار اس سے بہ احسن و خوبی عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔ ان کی حق گوئی، خلوص، درد مندی، استقامت اور انسانی ہمدردی کا بلند ترین معیار جہاں ان کی شخصیت کی دل کشی کی دلیل ہے وہاں ان اوصاف کی بدولت ان کی تخلیقات کو بھی ارفع معیار نصیب ہوا ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ مفاد پرست استحصالی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے باعث رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ زندگی کی بے اعتدالیوں، کجیوں، تضادات اور شقاوت آمیز ناانصافیوں سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیا گیا ہے۔ اظہار احمد گلزار کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ یہ لرزہ خیز اعصاب شکن صورت حال اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ مجموعی اعتبار سے معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ایسی کیفیت کو ایک بہت برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مسموم اثرات سے فکری اور شعوری روح کو مختلف النوع صدمات سے دو چارہونا پڑتا ہے۔ اظہار احمد گلزار کا کہنا ہے کہ فکر وخیال اور شعور کو ان حیات آفریں اقدار سے منسلک کیا جائے جو زندگی کی تاب و تواں سے مزین ہوں اورجن کے معجز نما اثر سے معاشرتی زندگی میں صحت و سلامتی، نفاست و پاکیزگی اورامن و آشتی کی فضا پیدا ہو۔
انسانی زندگی میں خواب کا خیال سے معاملہ بھی عجب گل کھلاتا ہے۔ ان کے کچھ خواب تو زندگی کے حقائق کی شیرازہ بندی کی ایک صورت سامنے لاتے ہیں اور کچھ خواب ایسے بھی ہیں جن سے عملی زندگی میں ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے۔ وہ خوابوں کے وسیلے سے لاشعورکی حرکت و حرارت کو ایک منفرد جہت عطا کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کی سعی میں اپنی خداداد صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ دراصل خوابوں کے رسیا نہیں بلکہ وہ لوگوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر یہ دیکھیں کہ اور بھی دکھ ہیں، دنیا میں خوابوں کے سوا۔ خوابوں کے رسیا لوگوں کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کے مانند ہے۔ پیہم محنت اور جگر کاوی کے بغیر کسی جوہر کے کھلنے کی توقع رکھنا سرابوں میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کار جہاں اس قدر دراز ہے کہ انسان اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہ کاروان ہستی اس قدر تیز گام ہے کہ اس کے ساتھ سر گرم سفر رہنا جان جوکھوں کا مرحلہ ہے۔ اس راہ میں سکون اور قیام بے محل ہے۔ اظہار احمد گلزار نے اپنی شاعری اور افسانوں میں یہی باور کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرابوں کی دنیا سے نکل کر حرکت و عمل کو زندگی کو جزو خاص بنانا چاہیے۔ اظہار احمد گلزار کا کہنا ہے کہ زندگی جبر مسلسل کا نام ہے ۔۔زندگی میں پڑا نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان کا یقین مصمم ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے سچ کہا تھا ۔۔
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نِکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
اظہار احمد گلزار نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حسنِ اخلاق کے اظہار و بیان کے لیے اپنی نعتیہ شاعری کو محض عقیدت و محبت کا آئینہ دار نہیں بنایا بل کہ ان کے کلام میں شعری و فنی محاسن جا بجا نظر آتے ہیں جو نہایت پر کشش اور دل آویز ہیں۔ ان کے شعروں میں داخلیت کا حسن اور خارجیت کا پھیلا دونوں موجود ہیں۔ لفظیات میں تنوع اور بلا کی گہرائی و گیرائی ہے، ان کا سلیق بیان عمدہ اور دل نشین ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ عقیدت و محبت کے ساتھ شعریت اور فنی محاسن کی سطح پر بھی ان کے کلام میں ایک سچی اور باکمال شاعری کی جو خوب صورت پرچھائیاں ابھرتی ہیں وہ متاثر کن اور بصیرت نواز ہیں۔ اظہار احمد گلزار کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
ہاشمی عربی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
شافع محشر خلق مجسم صلی اللہ علیہ وسلم
باعث رونق فصل بہاراں صلی اللہ علیہ وسلم
آپ کے لب کا ایک تبسم صلی اللہ علیہ وسلم
دشمن کا بھی دل پگھلا دے صلی اللہ علیہ وسلم
کیسا ہے انداز تکلم صلی اللہ علیہ وسلم
شان نرالی سب نبیوں سے صلی اللہ علیہ وسلم
ہادی اکمل شاہ معظم صلی اللہ علیہ وسلم
میری خالی جھولی بھر دو صلی اللہ علیہ وسلم
آپ سے بڑھ کر کون ہے منعم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری الفت کے نغمے گا رہا ہوں
صلے میں دین و دنیا پا رہا ہوں
میرے آقا بھلا اور کیا مانگوں
تمہارا ہی دیا تو کھا رہا ہوں
کہا اظہار نے اٹھ کر یہ محفل سے
نہ روکو! میں مدینے جا رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے ارفع ہے تیری شان رسول عربیۖ
تم پہ قربان میری جان رسول عربی ۖ
تیرا کونین میں ہے سب سے گھرانہ اونچا
جس کا جبریل ہے دربان رسول عربیۖ
تیری الفت کا نہیں جس میں ابلتا چشمہ
وہ ہے دل خالی از ایمان رسول عربیۖ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دنیا کے حسن کا شاہکار آپ ہیں
لاریب ! فخر سیرت و کردار آپ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاہتے ہو گر سنوارنا اپنے نصیب کو
رکھ عزیز دل سے خدا کے حبیب کو
ہر مرض کی دعا ہے مدینے کے مطب میں
گر نبض تم دکھا گے مدنی طبیب
ملتا ہے صفت کرنے کا ہر ایک کو ثواب
شاعر کو، نعت خوان کو، نثری ادیب کو
مانگو خدا سے دے کے محمد کا واسطہ
پا گے مہربان تم رب مجیب کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں