133

امین ملک کی دوسری برسی کی پروقار تقریب

ظ عباس

پنجاب سے باہر رہتے ہوئے پنجابی ادب تخلیق کیے جانے کی تاریخ اس عہد سے شروع ہوتی ہے جب پنجاب دھرتی کے باسیوں نے روزگار کے لیے مختلف ملکوں کا رخ کرنا شروع کیا جن میں یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، افریقا اور عرب دنیا کے مختلف ممالک شامل ہیں، انہوں نے اپنی دھرتی چھوڑی مگر ان کے دل و دماغ میں ان کی ثقافت اور اس کے مختلف رنگ رچے بسے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے علاوہ اس وقت برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کا شمار بھی پنجابی زبان و ادب کے بڑے اور نمایاں ترین مراکز میں ہوتا ہے۔ برطانیہ بھی ان ملکوںمیں شامل ہیں جو پنجابیوں کے لیے دوسرے گھر کی مانند ہے۔ یہ تذکرہ کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ معروف شاعر، کہانی کار اور ادیب امین ملک اور ان کی اہلیہ رانی ملک بھی برطانیہ میں رہتے ہوئے پوری زندگی پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔ امین ملک کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوئیجنہوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی جب کہ رانی ملک بھی پنجابی کی معروف شاعرہ ہیں۔ دونوں میاں بیوی نے لندن میں پنجابی ادبی سنگت بھی قائم کی جس کے تحت پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے بہت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔امین ملک دو برس قبل وفات پا گئے لیکن ان کی یادیں آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی دوسری برسی کی مناسبت سے پنجابی یونین کے زیر اہتمام پنجاب ہاوس میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پنجابی تحریک کیروحِ رواں الیاس گھمن نے کی، مہمانانِ خصوصی میں امین ملک کے برادر نسبتی خالد اسد،ان کے بھتیجے ملک ذکا اور پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان شامل تھے۔ تقریب کی میزبانی کے فرائض حسبِ سابق پنجابی یونین کے وائس چیئرمین بلال مدثر بٹ نے انجام دیے جب کہ پنجابی یونین کیچیئرمین مدثراقبال بٹ نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز اسٹیج سیکرٹری نے تلاوتِ قرآنِ پاک سے کیا ۔پنجابی یونین کے سربراہ مدثر اقبال بٹ نیتقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، پنجابی زبان کے فروغ اور پنجاب کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے انتھک کام کرنے والوں کی خدمات کے اعتراف اور ان کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے تقریبات کا اہتمام کرنا پنجاب ہاوس کے لئے باعثِ فخر ہے۔ امین ملک کا شمار بھی پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے سرگرم ان کارکنوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی پوری زندگی پنجابی ثقافت اور ادب کی آبیاری میں صرف کردی، انہیں سن اور پڑھ کر یوںلگتا ہے گویا پنجابی ان پر وارد ہوئی ہے۔ ان کی دوسری برسی کے دن ہی ان کی یاد میں تقریب منعقد کرنا ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔انہوں نے مزید کہا، امین ملک کی اہلیہ کا تعلق وزیر آباد کی مٹی سے ہے، میرا اور ان کاتعلق بھائی بہن جیسا ہے۔ ان کاامین ملک کے آگے بڑھنے اور ان کی تحریروں میں نکھار پیدا کرنے میں اہم کردار ہے،یہ اب ہماری ،سرکاری اداروں اور پنجابی ادب کے لیے کام کرنے والوںکی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والی نسل کو ملک امین کے کام سے روشناس کروائیں۔ امین ملک سے میری شناسائی الیاس گھمن کے توسط سے ہوئی تھی۔پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا، پنجاب ہاوس اور امین ملک کا گہرا تعلق تھاجب پنجابی میڈیا گروپ کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا دفتر چائینہ چوک میں تھا ۔وہاں امین ملک کی آمد ہوئی توان کا سوا دو گھنٹے کا انٹرویو کیا جس میںبہت سارے پہلووں پر بات ہوئی ۔آج پورا انٹرویو تو نہیں مگراس کے چند حصے محفوظ ہیں۔ ان کی کتاب اتھری کی تقریب رونمائی بھی پنجاب ہاوس میںہی منعقد ہوئی تھی وہ بہت شاندار تقریب تھی ۔ میرا جب پنجاب کے شعور کے حوالے سے جنم ہوا تو میں نے جن کتابوں کو پڑھا، ان میں امین ملک کی ہنجو کیڑی اکھ دا اور اتھری بھی شامل تھیں، ان دنوں انڈیا کی ایک پنجابی فلم سردار محمد آئی جس کا مرکزی خیال امین ملک کی کتاب ہنجو کیڑی اکھ دا سے ہی لیا گیا تھا۔ میں نے جب بھی ان کی کوئی تصنیف پڑھی تو ان کے کرداروں میں گم ہوکر خود کو پنجابی ثقافت کا حصہ ہی محسوس کیا ۔انہوں نے مزید کہا،پنجاب ہاوس میں جہاں بہت سارے منصوبوں پر کام ہورہا ہے وہاں پر پنجابی کی گم شدہ تصنیف کہانی کی بحالی کے لیے بھی کام کیا جارہا ہے۔ امین ملک کے لیے پنجاب ہاوس میں پانچ تقاریب منعقد کی جا چکی ہیں جو ہمارے لئے باعث فخر ہے ۔میاں آصف پنجابی نے کہا، مدثراقبال بٹ کا ہی کمال ہے کہ وہ نہ صرف زندہ لوگوںکی حوصلہ افزائی کے لیے تقاریب منعقد کرتے ہیں بلکہ اس دنیا سے جانے والوں کو یاد کرنے اور ان کے کام کو اگلی نسل تک پہنچانے کے لیے بھی ایسی تقاریب کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ امین ملک سے پنجاب ہائوس میں ہی شناسائی ہوئی تھی ۔ان کی یاد میں ایسی تقریب کا انعقاد ہمارے لیے باعثِ فخر ہے۔ زاہد حسن نے کہا ،آج پنجابی کے فروغ کی تحریکیں جس مقام پر پہنچ گئی ہیں ،یہ مدثر اقبال بٹ کا ہی کمال ہے۔عہدِ حاضر میں مدثر اقبال بٹ ،الیاس گھمن اور جمیل پال ہی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے پنجابی تحریکوں کی حرارکی کو برقرار رکھا ہوا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ امین ملک کے کام پرتحقیق کی جائے اور ان کے کام کو آنے والی نسلوں تک منتقل کیا جائے۔پروفیسر انعام الرحمن نے کہا ،مدثر اقبال بٹ نے مرنے والوں کے افکار کو زندہ رکھ کر ان کی یاد کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ کام یہی کر سکتے ہیں، امین ملک نام کے ہی امین نہیں تھے بلکہ وہ پنجابی ادب اور ثقافت کے بھی امین تھے۔ انہوں نے بیرون ملک رہتے ہوئے بھی اپنی ماں بولی اور ثقافت کو نہیں بھلایا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ میں نے ان سے ملاقات بھی کی اور گفتگو بھی کی اور اب ان کی کتب پر کام بھی کر رہا ہوں ۔مشتاق قمر نے کہا ، امین ملک کی پہچان رویل نے کرائی ہے اگر رویل نہ ہوتی تو آج ہم امین ملک کا ذکر بھی نہ کر رہے ہوتے۔ امین ملک کے خطوط پر مبنی ان کی کتاب پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خط نہیں لکھتے تھے بلکہ ادب تخلیق کرتے تھے کہ اپنی ماں بولی اور ثقافت کے حوالے سے بڑی وضاحت سے لکھتے تھے۔پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان نے کہا ، امین ملک ان لوگوںمیں سے ایک ہیں جنہوںنے بہت بڑی بڑی شخصیات کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ انہیں ہاتھ پکڑ کر چلنا بھی سکھا یا۔ میں بھی ان ہی لوگوں میں ہوں جنہیں انہوں نے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا ،ان کے اند ر لوگوں کے لئے جتنی محبت تھی اتنی جذباتیت بھی تھی وہ بہت جلد غصے میں آجاتے تھے ۔پنجابی زبان و ادب کو آگے بڑھانے کے باب میں چند لوگ ہی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، ان میں الیاس گھمن اور مدثر اقبال بٹ نمایاں ہیں ۔اس وقت پنجاب ہائوس پنجابی زبان و ادب اور ماں بولی کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں کی پہچان بن چکا ہے اور پنجاب ہاوس پنجابی کے فروغ کے لیے ہمہ وقت سرگرم ہے۔شہزادہ ذولقرنین نے کہا ، مدثراقبال بٹ کا یہ کمال ہے کہ وہ بڑی بڑی باتوں کو جلدی جلدی سمیٹ دیتے ہیں، جانے انہیں کس بات کی جلدی ہے۔ پنجاب ہائوس اور مدثراقبال بٹ ایک قالب دو جان ہیں۔ پنجاب ہاوس ان کے دم سے ہی آبادہے۔ میں نے ملک امین کو کہانی گو کے طور پر دیکھا ہے، وہ کہانی سناتے تو لوگ کہانی سنتے سنتے رونے لگتے تھے۔ وہ ہنس مکھ بھی تھے اورغصہ بھی بہت کرتے تھے لیکن اپنی تحریروں میں وہ ایسے دکھائی نہیں دیتے تھے بلکہ ایک دکھی اور درد بھرا شخص دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ، امین ملک کا ذکر ہو اور ان کی اہلیہ رانی بیگم کا ذکر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ،دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔پنجابی میڈیاگروپ کے سوشل میڈیا کے سربراہ محمد فاروق نے کہا ، میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میری ان سے لندن میں دو ملاقاتیں ہوئیں جن میں انہوں نے مجھے دو ایوارڈ دیے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں پنجابیوں کا انقلاب لانے کے سینکڑوں منصوبے بتائے ،میں نے کہا کہ یہ کام الیاس گھمن اور مدثر بٹ پر چھوڑ دیں۔امین ملک کے بھتیجے ملک ذکا نے کہا ، ملک امین کو فوت ہوئے دو سال ہوگئے ہیں لیکن ایک لمحہ ایسا نہیں گزرا جب وہ ذہن سے محو ہوئے ہوں۔پنجابی سے بہت محبت کرنے والے اور پنجابی پر جان قربان کرنے والے تھے، ان کارویل کے توسط سے الیاس گھمن سے تعلق استوار ہوا۔وہ جب لندن سے لاہور آتے تو آتے ہی کہا کرتے کہ بلال گنج جانا ہے، وہاں پر الیاس گھمن سے ملنا ہے۔وہ میرے چچا ہی نہیں، میرے دوست بھی تھے ۔ان کے تخلیقی جوہر کو تراشنے میںالیاس گھمن اور مدثر اقبال بٹ کا بڑا کردار ہے کہ مدثر اقبال آج بھی ان کے لئے محفل سجائے ہوئے ہیں۔ملک طارق نے کہا کہ میں اپنی بہن رانی بیگم کی طرف سے مدثر اقبال بٹ اور پنجاب ہاوس کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں کہ انہوں نے امین ملک کی برسی کے موقع پر اس پروقار تقریب کا انعقاد کیا، زندہ لوگوں کے لئے تو سب تقاریب کا انعقادکرتے ہیں لیکن دنیا سے جانے والوں کو یاد رکھنا بڑی بات ہے۔ پنجابی رہنما الیاس گھمن نے کہا، امین ملک بے شمار خوبیوں کا مالک تھا، اس نے رویل میں شائع ہونے والے اپنے خطوط کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ امین ملک پیدا ہی لکھنے کے لیے ہوا تھا ابھی اس نے بہت لکھنا تھا لیکن قدرت نے اسے مہلت ہی نہیں دی۔ رانی بیگم انتہائی مہمان نواز اور پنجابیوں کے لئے بڑے کھلے دل کی مالک ہیں، امین کو لوگ غصہ والا کہہ رہے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ خوش مزاج تھا، اس نے جو بھی لکھا کمال لکھا ۔میری اس کے ساتھ طویل رفاقت رہی اور اس کے ساتھ سفر بھی بہت کیا ،میں نے اس کی بہت کتابیں چھاپی ہیں اس کے بعد یہ ذمہ داری مدثر اقبال بٹ نے لے لی۔ انہوں نے مزید کہا ، یہ مدثر اقبال بٹ کا کمال ہے کہ میں جس بارے میں سوچتا ہوں وہ اسے عملی شکل دے دیتے ہیں ۔سیرت سکالر ڈاکٹر طارق شریف زادہ نے کہا ، ایک امین ملک تھے جنہوں نے اپنی تحریروں سے ایک عالم کواپنا گرویدہ بنا رکھاتھا اور ایک مدثر اقبال بٹ ہیں جنہوں نے لاہور کی حدتک پنجابی سے محبت کرنے والوں کی یاد میں تقاریب منعقد کر کے سب کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے ۔انہوں نے کہا ،آج میں امین ملک کی ذات کے اس پہلو کے بارے میں بات کرنے آیا ہوں جس کے بارے میں ابھی تک کسی نے بات نہیں کی۔ ان کی تحریروں کی وجہ سے میری ان کے بارے میں رائے یہی تھی کہ وہ عام دنیادار قسم کے انسان ہوں گے لیکن جب ان سے ملاقات ہوئی اور سیرت کے بارے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے اس حوالے سے جس سطح کی بات کی ،میں حیران رہ گیا کہ ان کے پاس سیرت کے حوالے سے اتنا علم ہے وہ سخت مزاج نہیں بلکہ مخلص انسان تھے ،ایسے ہی انسان جذباتی ہوتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر انہوں نے دعا کرائی جب کہ تقریب کے میزبان بلال مدثر بٹ نے پرتکلف کھانے سے مہمانوں کی تواضع کی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں