109

ابو کے نام!

سمیرا لیاقت خان

ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں
کتنے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جن کے سر پر باپ کا سایہ ہے۔کوئی رشتہ ہمیں اتنا مضبوط نہیں کرتاجتنا ایک باپ کرتا ہے۔عام خیال یہی ہے کہ ماں تربیت کرتی ہے،اچھا برا سکھاتی ہے،نیکی کا درس دیتی ہے،خیال رکھتی ہے،پہننے اوڑھنے کا،کھانے پینے کا،تعلیم و تربیت کا،مگر زندگی گزارنے کے اصول ہمیں اس ہستی سے سیکھنے کو ملتے ہیں جو پاس بٹھا کر نہیں سمجھاتا بلکہ اپنے طور طریقوں سے۔اپنے عمل سے ذہنوں پر اثر ڈال دیتا ہے. گھر سے باہر کیسا رویہ ہونا چاہئے،کن کاموں اور کن لوگوں سے محتاط رہنا ہے،لین دین کے معاملات کیسے نبٹانے ہیں،اجنبیوں پر کتنا اور کیسے بھروسہ کرنا ہے،یہ سب اور اسطرح کے تمام معاملات،ایک باپ ہی پوری نیک نیتی اور خلوص سے بچوں کو سکھا سکتا ہے.کچھ عرصہ پہلے ایک بڑی عجیب بات سنی کہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر باپ یا تو بندر ہوتا ہے یا اے-ٹی-ایم کی مشین،المیہ ہے, مگر یہ ایک تلخ سچائی محسوس ہوئی تو اپنے والد کی زندگی پر نظر ڈالی،کئی ایسی باتیں محسوس ہوئیں کہ جن کا احساس پہلیکبھی نہیں ہوا تھا۔ہم اپنے والدین کی تین بیٹیاں ہیں, بیٹا کوئی نہیں ۔قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے والدین کن مسائل سیگزرتے ہیں۔لیکن بیٹیوں کی جسطرح پروش انھوں نے کی ہے، قابل تحسین ہے،میرا مضمون ان مسائل سے متعلق ہرگز نہیں, بلکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ کس طرح ایک باپ اپنی بیٹیوں کو مضبوط کرتا ہے۔آپ بھی
میرے ابو سے ملئے،جنکے نام کے بغیر میرا نام نامکمل ہے۔پیشے کے اعتبار سے فزیوتھراپسٹ ہیں،پڑھائی میں اچھے تھے سکالرشپ پر پڑھتے رہے اور ہماری تعلیم پر بھی بہت توجہ دی۔اگرچہ کئی لوگوں نے سمجھایا کہ بیٹیاں ہیں, اتنا بھی کیا زور پڑھائی کا مگر ابو پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔جس نے جو چاہا،وہ پڑھایا اور وہ بھی خوشی سے۔یہ انھی کی سختی کا اثر ہے کہ میں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ابو سے ہم
نے بہت کچھ سیکھا۔قرآن ابو نے پڑھایا،سورتیں یاد کروائیں،نماز سکھائی۔ابو کو دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کیا۔حساب کا مضمون سکھایا،،بچپن میں ہمارے ساتھ کشتی اور لنگڑا شیر کھیلتے. رات کو لانگ ڈرائیو پر لے جاتے،ابو کے ہسپتال جاتے تو بڑی عزت ملتی۔رات کو پیغمبروں کے واقعات سناتے. صرف بیٹیاں ہونے پر کبھی لاتعلقی کا رویہ نہیں اپنایا. ابو نے دادی اماں کی آخری وقتوں میں بڑی خدمت کی۔انکے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ ابو اچھی جاب اور پیسہ لیبیا چھوڑ کر اس لیے آ گئے تھے کی دادی اماں نے انھیں واپس آنے کو کہہ دیا تھا. بظاہر معمولی،مگر اس بات نے ہمیں بہت سیکھ دی. ایک،والدین کی خدمت اور اطاعت،دوم،اچھی جاب اور پیسے کی والدین کے لیے قربانی۔یقین کیجئے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ ابو کو اس کا دنیا میں ہی
بڑا اجر ملا۔ خود انحصاری سکھائی،محنت سکھائی،ذمہ داریوں کو نبھانا سکھایا۔کیسے؟ اپنے عمل سے۔جیسے، اگر ہمیں کہیں جانا ہوتا،خود لے کر جاتے،کبھی کسی اور کو زحمت نہیں دی،سو رہے ہوتے تو بھی اٹھ کھڑے ہوتے،کہ میری ذمہ داری ہے،کبھی انکار نہیں کیا۔سکول،کالج یہاں تک کہ ہم جاب پر جانے لگے تو بھی اپنی ڈیوٹی دیتے رہے۔آج بھی میرے ساتھ آفس کے کاموں میں ساتھ جاتے ہیں۔ایک خوبی تو کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔کوشش کے باوجود ہم میں یہ خوبی پیدا نہیں ہو سکی۔اور وہ یہ کہ کھانے میں کوئی تردد نہیں۔جو مل گیا،جیسا مل گیا کھا لیا۔فرمائش پر کبھی کچھ نہیں بنوایا۔گھر کی خواتیں کا ہمیشہ احساس کیا۔میرا دعوہ ہے کے میں نے ان سے زیادہ مخلص کوئی نہیں دیکھا۔کسی سے شکوہ نہیں کیا۔کء مسائل سے گزرے۔مگر اللہ پر توکل کیا۔سکھایا،مشکل دور گزر جاتا ہے،انسان اللہ پر بھروسہ رکھے۔دنیاوی لین دین میں کسی کا حق نہیں مارا۔نقصان اٹھا لیا،مگر دیا کسی کو نہیں۔چنانچہ, ہمیں بھی یہی سیکھنے کو ملا۔ایسی کء اور باتیں ہیں جو ہم نے ان سے سیکھیں۔ان سے اختلاف بھی کیے،مگر ان کے خلوص میں،ہمارا خیال رکھنے میں کبھی کمی نہیں آئی۔وہ اپنی بات،اپنی انا چھوڑ کر ہماری خوشی میں خوش ہو جاتے ہیںیقینا سب باپ میرے ابو جیسے ہوتے ہیں۔اوپر سے سخت اور اندر سے محبت سے لبریز۔ہمارے سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ باپ اے ٹی ایم نہیں بلکہ درخت کی مانند ہے،تیز دھوپ میں چھاں کی مانند،کہ جسکے سائے میں اولاد کھاتی،پیتی،کھیلتی،آرام کرتی اور مزے کرتی پروان چڑھتی ہے۔اس درخت کو خیال اور محبت دیں،اور پوچھیں ان سے جنکے باپ نہیں ہوتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں