128

قومی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا

سحر مختار

کسی بھی معاشرے میں خواتین بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار خواتین کے تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے پر ہے۔معاشرے میں جتنی توجہ و اہمیت لڑکوں کی تعلیم کو دی جاتی ہے لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام بھی اسی طرح کیا جانا چاہیے۔علم حاصل کرنے کے بارے میں دین اسلام میں بہت زیادہ تلقین کی گئی۔ اسی سلسلہ میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے اس حدیث پاک سے ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے علم حاصل کرنے کو بھی فرض قرار دیا ہے۔اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔بچے کی ابتدائی نشوونما اور تربیت ماں ہی کرتی ہے وہی اچھے برے کا فرق بتاتی ہے،بڑے چھوٹے کی تمیز و ادب کرنا سکھاتی ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے’ جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے گویا ایک مہذب معاشرے کا حصول تعلیم یافتہ اور باشعور ماں کے ذریعے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔خواتین کے لیے تعلیم کا حصول اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ تعلیم خواتین کو پر اعتماد اور خود مختار بناتی ہے۔اگر خواتین کو اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے باہر کام کرنا پڑے تو تعلیم یافتہ ہونے کے باعث وہ کسی اچھی جگہ نوکری کر کے اچھے سے اپنی اور گھر والوں کی مالی طور پر مدد کرسکتی ہیں۔جہاں تک خواتین کے پراعتماد ہونے کی بات ہے تو تعلیم کے ذریعے ہی انہیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ معاشرے میں رہ کر کس موقع پر کیسے بنا کسی خوف اور ڈر کے بات چیت کرنی ہے اور اپنا نقطہ نظر رکھنا ہے۔تعلیم یافتہ خواتین اپنے حقوق سے بخوبی واقف ہوتی ہیں۔ اپنے حقوق سے آگہی ہونے کی وجہ سے خواتین اس قابل ہوجاتی ہیں کہ کسی قسم کا مسئلہ یا پریشانی درپیش ہو تو وہ اپنے حقوق کو جانتے ہوئے صحیح و غلط کی پہچان رکھتے ہوئے درست فیصلہ لے سکتی ہیں اور اگر کوئی ناانصافی کی جارہی ہو تو اس کے خلاف بھی تعلیم یافتہ خواتین اپنے حقوق کے مطابق اپنا مدعا بیان کرنے کی قابلیت حاصل کر لیتی ہیں۔فنی، تکنیکی اور دیگر شعبوں کی طرف نظر دوڑائی جائے تو اس میں خواتین کا کام اور ان کی محنت صاف دکھائی دیتی ہے۔آج کل کے دور میں شائد ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں خواتین کی نمائندگی نہ ہو ڈاکٹر ہو یا انجینئر، استاد ہو یا پائلٹ ہر جگہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں۔اور اگر ان سب کاموں کو خوش اسلوبی انجام دینے کی بات کی جائے تو خواتین تب ہی اپنے فرائض بہتر طریقے انجام دے پائیں گی جب وہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہونگی۔اگر ملکی ترقی، خوشحالی اور استحکام کی بات کی جائے تو اس میں بھی خواتین کا کردار بہت اہم ہے ۔ ایک آن لائن ویب سائٹ کی مطابق دنیا کی آبادی کا %49.58 حصہ خواتین پر مشتمل ہے ۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا کتنا زیادہ ضروری ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یونیسیف آن لائن ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 129 ملیںن لڑکیاں آج بھی سکول نہیں جاتی ہیں۔اس ڈیٹا سے یہ بات واضح ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں شرح خواندگی کو زیرِبحث لایا جائے تو ایک آن لائن ویب سائٹ ilm.com.pk کی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق مردوں کی شرح خواندگی %70 اور خواتین کی خواندگی کی شرح %48 ہے۔جبکہ پاکستان آبادی کا تقریبا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔اس اعدادو شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد فراہم کی جاسکے۔اس ضمن میں متعلقہ حکام کو چاہیے کہ پاکسان کے جن علاقوں میں بچیوں کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سہولت موجود نہیں ہے وہاں جدید تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے اور لڑکیوں کو جدید تعلیم سے روشناس کروایا جائے۔آج بھی ہمارے ملک میں بہت سے دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کا باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔وہاں تو لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ان علاقوں کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایسی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو اس طرح کے علاقوں میں جاکر وہاں کے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کی افادیت سے آگاہ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم کے میدان میں اپنا لوہا منوا سکیں اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔اگر اردگرد نظر دوڑائی جائے تو اس بات کا اچھے طریقے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فنی و تکنیکی کام آج کل کے دور کی اہم ضرورت ہیں اس لیے خواتین کے فنی و تکنیکی تعلیم کا بھی مناسب طریقے سے اہتمام کیا جائے تاکہ خواتین اس جدید تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔پیشہ ورانہ کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کو ایک منظم طریقے سے چلانے میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔خاندان کے افراد سے حسن سلوکی سے پیش آنا ہو یا مہینہ بھر کے لیے خرچ کا بجٹ بنانا ہو، بچوں کی تربیت کا معاملہ ہو یا گھریلوں ملازمین سے اچھا رویہ رکھنا ہو ، یہ سب چیزیں اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی بہتر طریقے سے سیکھی جاسکتی ہیں۔گویا مندرجہ بالا تمام نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ شعبہ ہائے زندگی کے کسی بھی میدان میں خواتین کی نمائندگی کے بغیر ترقی کا حصول ممکن نہیں اور یہ ترقی تب ہی کی جاسکتی جب خواتین باشعور اور تعلیم یافتہ ہوں۔ امید ہے کہ آئندہ چند سالوں میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے اعلی سے اعلی انتظامات کیے جائیں گے اور تعلیم نسواں کی شرح کا گراف کافی حد تک بڑھ جائے گا۔انشااللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں