181

پنجابی کتابوں پر انعامی ادبی بیٹھک

محمد اشفاق ایاز

روزن ادبی فورم(ورلڈپنجابی فورم) کے صدر ڈاکٹر محمد افضل راز نے آج سے بائیس برس قبل پنجابی زبان میں ادب تخلیق کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور عام لوگوں تک ان کی تحریروں کی شناسائی کے لئے انعامی بیٹھکوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جو خالصتاً اپنی مدد آپ کے تحت تھا۔کبھی کبھی کوئی دوست بھی معاونت کر دیتا ۔یہ سلسلہ اسی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ مورخہ 28 مئی 2022 ء بروز ہفتہ کوورلڈ پنجابی فورم اورروزن ادبی فورم کے زیر اہتمام،گجرات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور محکمہ اطلاعات و ثقافت (حکومت پنجاب) کے باہمی اشتراک سے 2021 ء میں شائع ہونے والی پنجابی (شاہ مکھی) کتابوں کی انعامی بیٹھک کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ انعامی بیٹھک گجرات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے خوبصورت اور جدید سہولیات سے آراستہ جناح ہال میں منعقد کی گئی۔
انعامی مقابلے میں شرکت کے لئے پنجاب بھرسے پی ایچ ڈی ، ایم فل سکالرز ، پروفیسرز اور پنجابی لکھاریوں کی طرف سے 72 کتابیںموصول ہوئیں ۔گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال موصول ہونے والی پنجابی کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔موصول شدہ کتابوں کی مختلف عنوانات کے تحت درجہ بندی کر کے انہیں چار مختلف ججوں کے حوالے کیا گیا۔یہ کام اس قدر رازداری سے انجام دیا گیا کہ کسی ایک جج کو بھی پتہ نہیں تھاکہ دوسرا جج کون ہے؟ ہر ایک نے کتاب پر اپنی اپنی رائے دی۔ ججوں کی رائے کو یکجا کرنےکے بعد انعامی نتائج کو حتمی شکل دی گئی۔ انتظامیہ کو اس بات پر حیرانی تھی کہ اکثر کتابوں کے بارے میں ججوں کی رائے ایک تھی۔
میںیہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تمام کتابیں اپنے نویکلے، منفردطرز فکرکے لحاظ سے اس قابل تھیں کہ ان سب پر انعام دیا جائے۔ ان بہتر کتابوں میں سے انعام کے لئے چار چار کتابیں الگ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ جو کتابیں ان چارچار انعامی کتابوں میں شامل نہیں ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی بھی حوالے سے دوسری کتابوں سے کم تھیں۔ مصنفین کی محنت اور کوشش اپنی جگہ قابل قدر تھی اور وہ اس بات پرمبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کے مصنفین نے انہیں لکھتے ہوئے یا ترتیب دیتے ہوئے بھرپور محنت کر کے کتاب شائع کی۔ ان کی کتابوں سے بھی ہماری آنے والی نسلیں بھرپور مستفید ہو ں گی ۔
تقریب کا آغاز محمد عمر ندیم نے تلاوت قرآن پاک اور عارف شاہدگوندل نے نعت رسول پاکﷺ پیش کر کے کیاجب کہ نظامت کے فرائض پنجابی کے معروف سوجھوان، قلمکار احسان اللہ طاہراورڈاکٹرمحمدافضل راز نے ادا کیے۔
گجرات چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر نعیم امتیاز گوندل نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے یہ انتہائی خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے چیمبر میں دانشور اور پڑھے لکھے لوگ یکجا ہوئے ہیں اور انہوں نے اس چیمبر میں علم کا نور پھیلا دیاہے۔ میں ان تمام لکھاریوں کا شکریہ ادا کرتا ہوںجنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے یہاں جمع ہونے کے لئے نکالے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انعام چھوٹا ہو یا بڑا اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس سے لکھاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اوردوسروں کو اپنی مادری زبان میں لکھنے کی تحریک ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج مجھے یونیورسٹی کا زمانہ یاد آگیا ہے ،ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ میں یونیورسٹی کی پنجابی کلاس میں بیٹھا ہوں اور استاد پنجابی زبان کی ترویج کے بارے میں طالب علموں کو بتا رہے ہیں ،یہاں سب پنجابی کے ہیرے موجود ہیں۔میں تمام انعام حاصل کرنے والے لکھاریوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور امید کرتاہوں کہ ہماری ادبی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر محمدافضل راز اسی طرح یہاں ادبی محفلیں سجاتے رہیں گے۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی پنجابی میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو اورقائدتحریک مدثر اقبال بٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دور حاضر میں پنجابی کے لیے کام کرنا عین عبادت ہے۔ اس سلسلے میں گجرات سے ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی ہے جہاں افضل راز جیسے لوگ پنجابی کے لیے کام کر تے نظرآتے ہیں۔ وہ پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے ہمیشہ کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گجرات چیمبر آف کامرس اور اس کے صدرنعیم امتیاز گوندل بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جو اس طرح کی محفلیں سجاتے ہیں۔ اور اپنی طرف سے اور اپنے ادارے کی طرف سے پنجابی زبان کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجابی ولیوں اور صوفیاکی زبان ہے، اس لیے بھی اس کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ پنجابی اگرہمارے نصاب کا حصہ ہو گیتو ہم تب ہی پنجابی پڑھ سکیں گے، اسے سمجھ سکیں گے اور بول سکیں گے۔ پھر ہم بلھے شاہؒ، شاہ حسینؒ ، بابا فریدؒ اور دیگر تمام ولیوں اور صوفیا کے کلام کو پڑھ بھی سکیں گے اور سمجھ بھی سکیں گے جن کی تعلیم صرف محبت، امن اور رواداری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اگرپنجابی زبان سے واقف ہو گی تو وہ ان اولیا اور صوفیا کے کلام کو سمجھ سکے گی اور امن اور محبت کی پرچارک ہو گی ۔ وہ غنڈہ گردی، بدمعاشی اور دہشت گردی سے دور ہٹ جائے گی۔لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل تک پنجابی کا پیغام پہنچائیں۔ ہماری تحریک کی کوشش ہے کہ پنجابی کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح صوبہ سندھ اور صوبہ پختونخواہ میں کوئی بچہ میٹرک پاس نہیں کر سکتا جب تک وہ سندھی اور پشتو زبان میں امتحان پاس نہ کر لے۔ ہماری تحریک بھی یہی ہے اور مطالبہ بھی یہی ہے۔ جس کے ہراول دستے کا کردار افضل راز ادا کر رہے ہیں کہ ہم اس خطے میں اپنی ماں بولی کو نافذ کر سکیں۔ اس کو تعلیم کا ذریعہ بنا سکیں۔ اس طرح ہی ہماری نئی نسل پنجابی سے اپنا رشتہ مضبوط کر سکتی ہے اور ہماری ماں بولی پنجابی زندہ رہ سکتی ہے۔
گوجرانوالہ سے تشریف لائے شاعر اور سہ ماہی قرطاس کے ایڈیٹر جان کاشمیری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں افضل راز کو آج کا نہیں بلکہ ایک طویل عرصہ سے جانتا ہوں۔ میرا اس کا برادرانہ اور دوستانہ تعلق گزشتہ بیس ، پچیس سال پر محیط ہے ،پنجابی زبان کی ترقی اور بڑھوتری کے لئے ان کی کوششوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاعروں اور ادیبوں کو ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ ان کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ افضل راز نے پنجابی لکھاریوں کے اعزاز میں خوبصورت محفل اس خوبصورت ہال میں سجا کر آج اس وہم کو دور کر دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دامے درمے قدمے سخنے افضل راز کا ساتھ دیں تاکہ وہ پنجابی زبان کی ترقی کے لئے جو کام کر رہا ہے اس میں اس کا ہاتھ بٹائیں۔
سابق ڈائریکٹر پاسپورٹ اخلاق قریشی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ مجھے یہاں پنجابی ادب کے دانشوروں اور لکھاریوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ مجھے یہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں افضل رازکا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ان کا پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج میں نمایاں حصہ ہے۔ اس طرح کی محفلیں، اس طرح کی بیٹھکیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ پنجابی زبان ترقی کر رہی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجابی زبان کو کس طرح آگے بڑھایا جائے اور بچوں تک یہ پیغام کیسے پہنچایا جائے؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم پنجابی کو اپنی ماں بولی کہتے ہیں۔ مگر جب گھر میں ماں ہی اسے نہیں بولے گی تو ہم اسے کیسے ماں بولی کہہ سکتے ہیں؟گھروں میں مائیں اردو اور انگریزی بول رہی ہیںبلکہ اب تو اردو سے بھی دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ سکولوں میں پرائمری سے میٹرک تک پنجابی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے۔۔
اس یادگارانعامی ادبی بیٹھک میں پنجابی لکھاریوں، دانشوروں اور سوجھوانوں کی بائیس منتخب کتابوں پر انعامات تقسیم کیے گئے ۔ انعام حاصل کرنے والے ہر لکھاری کو نقد انعامی رقم،سرٹفیکیٹ اور یادگاری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دو تین ایسے انعامی لکھاری بھی تھے جو اپنی سرکاری اور نجی مصروفیات کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔ تاہم ان کا انعام ،سرٹفیکیٹ اوریادگاری شیلڈ ان کے بھیجے گئے نمائندوں کے حوالےکر دی گئی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ( دینی ادب)میں دوسراا نعام مرحوم شاعر طاہر وزیر آبادی کو ان کی کتاب(جس دا اندر نور الٰہی) پر دیا گیا۔ ان کا انعام وصول کرنے ان کے بیٹے اس تقریب میں تشریف لائے جنہیں پورے اعزاز کے ساتھ انعام ، سرٹفیکیٹ اوریادگاری شیلڈ دی گئی ۔
اس یادگارانعامی ادبی بیٹھک میں گزشتہ سال کی طرح پنجابی ادب میں بھرپور کردار ادا کرنے پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس سال یہ انعام (25 ہزار روپے)، شیلڈ اورسرٹفیکیٹ پنجابی کے مہان قلمکار شارق مان کے نام کیا گیا۔
اس سال کی تقریب کی اہم ترین بات یہ تھی کہ اس دفعہ دو ایوارڈز کا اضافہ کیا گیا۔ ایک یہ کہ پنجابی زبان کی ترویج میں بھرپور کردار ادا کرنے والی نمایاں شخصیات کو پنجابی سیوک ایوارڈ ، سرٹفیکیٹ اور ایک چیک سے نوازا گیا، جن میں یہ حضرات شامل ہیں:
1۔جناب محمد عمر ندیم
2۔صوبیدار(ر) رشید مرزا
3۔مرزا محمد آصف
4۔منیر صابری کنجاہی
5۔ایم فاروق حیدر قاضی
6۔محمد یعقوب فردوسی
7۔عارف یار سوہلوی
8۔احسان اللہ طاہر
9۔ڈاکٹر انوار احمد اعجاز
دوسرا اہم ایوارڈ اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کی خدمات کے اعتراف میں(بانہہ بیلی شیلڈز) دی گئیں۔ ان میں شامل نمایاں نام یہ ہیں :
1۔عامر قیوم بھٹی
2۔محمد عبدالرحمان ارشد
3۔محمد اشفاق ایاز
4۔خموش چیچیانوی
5۔محمد ارشد
6۔عامر قیوم بھٹی
7۔عبداللہ بیگ
8۔توقیر شبیر
9۔محمداکرام سجاد
10۔شاہد اقبال گھمن
تقریب کے آخر میں ڈاکٹر محمد افضل راز نے ایک قرار داد پیش کی اور کہا کہ یہ قراردادپیش کرنے کا ایک مقصد ہے اور لوگوں کویہ بتاناہے کہ یہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں پیش کی جارہی ہے جس نے اپنی زندگی تو پنجابی زبان کے فروغ کے لئے وقف کر رکھی ہے اور اپنے عمل سے ثابت بھی کر رہا ہے اورپنجابی کو عملاً اپنی اگلی نسل میں بھی منتقل کر دیا ہے ماشاء اللہ،میری مراد پنجابی میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو مدثراقبال بٹ سے ہے۔ آج کی اس بھرپورانعامی ادبی بیٹھک سے التماس گزار ہوں کہ مدثراقبال بٹ کو ان کی خدمات کی بدولت(قائد تحریک ،قائد پنجابی )لکھا ،پڑھا اور بولا جائے ۔ اس قرارداد کو حاضرین نے ہاتھ اٹھا کر متفقہ طور پرمنظور کر لیا، جس پرڈاکٹرافضل رازنے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ انعامی بیٹھک میں دئے گئے انعامات کی تفصیل کچھ یوں ہے :
پہلا کھیتر(دینی ادب)
1۔پہلا انعام محترمی قمر محمود عبداللہ کی کتاب(خلقت نے سردا ر )
2۔دوجا انعام محترمی طاہر وزیر آبادی کی کتاب(جس دا اندر نور الٰہی)
3۔تیجا انعام محترمی ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم کی کتاب (سلاماں دی خوشبو)
4۔چوتھا انعام محترمی عبدالمجید صابری کی کتاب(نوری چمکاں)
دوجا کھیتر (نثری ادب)
5۔پہلا انعام محترمی زاہد حسین کی کتاب(کہانی اک ماں دی (ناول)
6۔دوجا انعام محترمی آکاش کی کتاب(اوم پریم کُٹیا)
7۔تیجا انعام محترمی جاوید بوٹاکی کتاب(چَولاں دی بُرکی)
8۔چوتھا انعام ڈاکٹر عرفان پاشا کی کتاب(پرتن کہانیاں)
تیجاکھیتر(شعری ادب)
9۔پہلا انعام محترمی گُر شرن سنکھ عجیب کی کتاب(پشپانجلی)
10۔دوجا انعام محترمہ شکیلہ جبین کی کتاب(اکھیاں دی جوگ)
11۔تیجا انعام چوہدری محمد اسماعیل چیچی کی کتاب(ماپے)
12۔چوتھا انعام محترمہ پروین سجل کی کتاب(جاچڑ)
چوتھا کھیتر(ترجما،التھا،لپی انتر،جوڑنہار ادب)
13۔پہلا انعام محترمہ ڈاکٹر نگہت خورشید کی کتاب(پنجابی ریڈیو ڈرامہ)
14۔دوجا انعام محترمی صدیق وامق کی کتاب(منظور جھلا حیاتی تے فن)
15۔تیجا انعام ڈاکٹر سونیا اللہ رکھا کی کتاب(اجوکا تھیٹردے پنجابی ناٹک)
16۔چوتھا انعام محترمی صغیر تبسم کی کتاب(اساں چُپ نہیں وٹنی دھرتی تے)
پنجواں کھیتر(کھوج پرکھ ادب)
17۔پہلا انعام محترمہ ثروت سہیل کی کتاب(مسیحا دی اُڈیک (لکھاری سیموئل بیکٹ)
18۔دوجا انعام محترمہ منجیت کور/ آصف رضا کی کتاب(رُوح دی اکھ وچوں)
19۔تیجا انعام محترمی انور ندیم علوی /شیخ ایازکی کتاب(تھل ترہیائے نین)
20۔چوتھا انعام محترمی زبیر احمد کی کتاب(20 ویں صدی دی وار)
چھیواں کھیتر(بال ادب)
21۔پہلا انعام ڈاکٹر محمد ایوب کی کتاب(باتاں دادی دیاں۔بال لوک باتاں)
22۔ دوجا انعام محترمی حنیف راجہ کی کتاب(پھُل،تتلی،خشبو)
تقریب کے آخر میں حسب روایت مہمانوں کی تواضع پرتکلف ظہرانے سے کی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

پنجابی کتابوں پر انعامی ادبی بیٹھک” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں