106

احسان کا بدلہ نفرت تو نہیں

مدثر اقبال بٹ

پشاور میں دو سکھوںکے قتل ِناحق نے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے یہ گولیاںگرو نانک کے ماننے والے دو بے گناہوں کے سینوں میں پیوست نہیں ہوئیں بلکہ مجھ سمیت ہراس پاکستانی کا سینہ چھلنی ہوا ہے جسے اپنی مٹی اور وطن سے محبت ہے۔یہ کسی ایک برادری کے جوانوںکا قتل نہیںبلکہ پاکستانی پرچم میں موجود اس سفید رنگ پہ حملہ ہے جس کے بغیر پاکستان کا تصور ہی مکمل نہیں ہوتا۔میں ذاتی طور پر پاکستان میں آبادسکھوںسے واقف ہوں اور گاہے گاہے ان کے وفود سے ملاقاتیں بھی جاری رہتی ہیں۔یہ نہایت پر امن اور محب وطن لوگ ہیں جنہوں نے کبھی کسی فساد یا ملک دشمن سرگرمی میں حصہ نہیںلیا۔
بین المذاہب ہم آہنگی، تصوف ،علم اور طب سمیت قریب قریب ہر میدان میں ان کی خدمات لازوال ہیں۔ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے جب میرے چھوٹے بھائیوں جیسے دوست کلیان سنگھ کلیان نے پاکستان کے پہلے سکھ پی ایچ ڈی سکالر ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے،اسی طرح ڈاکٹر مہندر پال سنگھ کو شعبہ طب میںشاندار خدمات پر نشان ِ پاکستان کا اعزاز ملا۔
ابھی ہم ان خوشیوں کو دوبالا کرنے کے پنجاب ہائوس میں تقریب کا اہتمام کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اس سانحے نے ان خوشیوں کو ماند کردیا ہے۔ مجھ جیسے تمام امن پسند محب وطن ایسے سوگ میں ہیں جس نے خوشی کا ہر رنگ پھیکا کردیا ہے۔یہ دونوں سکھ پشاور کے رہنے والے تھے اور شاید ان کی مادری زبان بھی پشتو ہو ،کیوں کہ پاکستان میں رہنے والے بیشتر سکھوںکی مادری زبان پشتو ہی ہے۔
لیکن چونکہ یہ لوگ مذہبی حوالے سے بابا نانک کے ماننے والے ہیں، اس لیے پنجابی زبان کے بغیر ان کا ایمان ہی مکمل نہیںہوتا۔جب کوئی سکھ سر پر پگڑی باندھ لیتا ہے تو اس کی پہچان کوئی بھی ہو اسے پنجابی ہی سمجھا جاتا ہے۔انہیں پشاور جیسے علاقوں میں پختون ہونے کے باوجود پنجابی شناخت سے پہچانا جاتا ہے۔یہاں سکھوں یا پنجابیوںکی ٹارگٹ کلنگ کوئی نئی بات نہیں۔کچھ عرصہ قبل اسی شہر میں ایک سکھ طبیب کو بھی گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا،جس کے دستِ شفا سے لاکھوں افراد صحت یاب ہوئے تھے۔
اس نے تو کبھی تفریق نہیں رکھی تھی کہ دوا لینے والا کس مسلک یا مذہب کا ماننے والا ہے۔وہ تو دوا دیتا تھا،علاج کرتا تھا لیکن ظالموںنے اس مسیحا کو بھی دہشت کی نذر کردیا ۔کشت و خون کا یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے، جو ریاستی اداروں کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔معاملہ محض ان مظلوم سکھوںکے قتل کا نہیں ہے،بلکہ اصل مسئلہ وہ تاثر ہے جو پنجابیوں کو یہ احساس محرومی دلارہا ہے کہ شاید ہم لوگ صرف قربانیاں دینے کے لیے ہیں۔ان قربانیوںکے باوجود ہمی کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور ہر الزام بھی ہمارے ہی دامن پہ دھرا جاتا ہے۔
حالانکہ ہم اہل ِ پنجاب نے تو کبھی محبت کے سوا اپنے ہم وطن بھائیوں کو کچھ نہیں دیا۔امن اور بھائی چارہ تو ہماری ہزارہا سال کی ثقافت کا وہ رنگ ہے جسے آپ ہمارے ہاں بسنے والے ہر مذہب کے ماننے والے کے عقیدے میں تلاش کرسکتے ہیں۔
پنجاب بابا نانک اور بابا فرید کی د ھرتی ہے جہاں سے ہمیشہ امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام ہی دیا گیا ہے۔ ہم پنجاب واسیوں کے دل بہت آباد ہیں۔ ہم نے اپنے دستر خوان اور رزق تک کو دوسروں سے بانٹا ہے۔ ہمارے گلی محلوں میں آباد پٹھان ،بلوچ یا سندھی بھائیوں کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ غیر ہیں۔ ہم انہیں احترام دینے کے ساتھ ساتھ اپنائیت کا وہ احساس بھی دیتے ہیں جو شاید کہیں اور وجودہی نہیں رکھتا۔
اس محبت کی بنیاد میں پنجاب کی ہزارہا سال پرانی وہ زندہ ثقافت ہے جس نے ہمیں مذاہب، مسالک، رنگ، نسل اور عقیدے سے بالا ہو کر انسانی بنیادوں پر محبت کرنا سکھایا ہے۔ یہی نظریہ اور سوچ لے کر ہم نے لاہور کا سب سے بڑا ادبی اور فکری مرکزپنجاب ہائوس آباد کیا ہے جہاں پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی زبانوں، لہجوں اور ثقافتوں پر مکالمے کی روایت زندہ ہے۔ یہاں زبان یا ثقافت کی بنیاد پر نفرتوں کی تقسیم کے بجائے اپنی اپنی الگ پہچان کے ساتھ فلسفہ ادب اور منطق سمیت ہر موضوع پر بیٹھک لگائی جاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہیے تو یہ ہے پنجاب کا وہ چہرہ جہاں ہر آنے والے نے اپنی ادبی اور لسانی پہچان کے ساتھ اپنی اپنی بات کی اور ہم پنجاب واسیوں نے اسے پورا مان اور احترام بھی دیا۔ہم نے تنقید بھی سنی اور دلیل کے جواب میں تاویل بھی،لیکن کہیں کسی بھی مقام پر نفرت کا کاروبار نہیں کیا۔
ہمارے معاشرے میں پختون بھائی اپنا کاروبار کرتے دکھائی دیں گے سندھی بھی دکھائی دیں گے اور بلوچ بھی۔ یہاں ایسی کوئی آبادی نہیںجہاں دوسری ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اپنی پہچان کے ساتھ نہ رہتے ہوں۔ یہاں تک کہ ہماری درسگاہوں میںہمارے اپنے بچوں کو میرٹ پر داخلہ نہیں ملتا لیکن دوسرے صوبوں کے بچے یہاں کوٹے پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہم ان بچوں کو بھی اپنے بچوں کے برابر محبت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں یہ طلبا اپنی اپنی لسانی بنیادوں پر بنائی ہوئی تنظیموں کے ذریعے پرتشدد کارروائیاں بھی کرتے ہیں لیکن عام پنجابی ان سے نفرت نہیں کرتا۔
یہ پنجاب کے خلاف بات کرتے ہیں مضامین لکھتے ہیں اور مظاہرے بھی کرتے ہیں۔ پنجابی اسے ان کا بنیادی حق سمجھتے ہوئے صرف نظر کرتا ہے۔ ہم جس طرح صدیوں پہلے اپنا دستر خوان بانٹ لیتے تھے آج بھی رزق بانٹنے کی روایت نبھا رہے ہیں۔لیکن اب شاید حوصلہ جواب دے رہا ہے۔ہمیں اس محبت کے بدلے میں نفرت کے سوا کچھ بھی نہیںملا۔ہم جنہیں اپنے شہروںمیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ،وہ اپنے شہروں میں ہمارے خاک نشین مزدوروں کو بھی برداشت نہیں کرتے۔آئے روز ہم اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر اب جیسے بے ہمت ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہم نے ان قبروں کا حساب بھی کسی سے نہیں مانگا،جہاں ہزاروں کے حساب سے اپنے بیٹے دفن کئے جن کا قصور صرف پنجابی ہونا تھا۔۔لیکن شاید اب اور ہمت باقی نہیں رہی۔ہم صدیوں سے محبت بانٹنے والے اب یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کیا ہمارایہ عمل درست تھا؟ ہماری نئی نسل اپنے آبا کے اس طرز عمل پر سوالات اٹھانے لگی ہے کہ کیا دستر خوان اور رزق بانٹنے والی فراخ دلی درست عمل تھی جس کے جواب میں گالی گولی اور نفرت کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا؟ اور تو اور، اب میرے اپنے بچے مجھے لاجواب کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم لوگ اپنے ان مزدور بھائیوں کی لاشیں اٹھانے کے لیے ہی ہیں جو بلوچستان میں محض پنجابی شناخت پر قتل کر دیے جاتے ہیں۔ کیا ہم کے پی میں صرف پنجابی ہونے پر نفرت کی بھینٹ چڑھا دیے جانے والوں کے جنازے وصول کرنے کے لیے ہیں۔ ہمیں جو نفرت سندھ سے ملتی ہے، کیا وہی ہماری محبتوں کا صلہ ہے؟ سچ پوچھئے تو اب میں خود لاجواب ہو جاتا ہوں۔
مجھے اس پنجاب ہائوس کا وجود ہی بے معنی دکھائی دینے لگتا ہے جسے میں نے اپنی مٹی کے ساتھ منسوب کرکے یہ سوچا تھا کہ یہاں ہر قوم،ہر سوچ اور خطے کی نمایندگی برابری کی بنیاد پر ہوگی۔ روز اخبار کی لہو رنگ شہ سرخیاں مجھے اپنے محبت کے فلسفے پہ جیسے شرمندہ کردیتی ہیں۔کبھی کبھی تو میں خود بھی مایوس ہوجاتا ہوںکہ جیسے محبتوںکے پھول جو ہم نے بانٹے ہیں،سب کے سب رائگاں گئے۔جیسے ہم نے دوسروں کے دکھ بانٹ کر بے وجہ اپنے دکھ بڑھا لیے ہیں۔
نئی نسل بھی اب یہ سوال کرنے لگی ہے کہ محبت کا جواب محبت کیوں نہیں؟ کب تک ہمارے مزدوروں کو پنجابی ہونے کا قرض اپنی جان دے کر اتارنا ہوگا اور کب تک ہمارے بچے اپنے حقوق دوسروں کو دے کر بھی گالی سنتے رہیں گے۔
کب تک منظور پشتین محسن داوڑ اور گلالئی اسماعیل جیسے لوگ پنجاب کے خلاف زہر اگلتے رہیں گے اور کب تک بلوچ علیحدگی پسند بھارتی کٹھ پتلیاں بن کر ہمارے بچوں کا قتل عام کرتے رہیں گے اور ہم خاموشی سے محض تماشا دیکھتے رہیں گے۔۔۔۔
ہم نے تو اپنے صوفیا سے یہی سیکھا ہے کہ محبت فاتح عالم جذبہ ہے۔ امن ا ور بھائی چارے کے فلسفے سے کسی کو بھی قائل کیا جا سکتا ہے۔ ہم پنجابیوں نے تو سیکھا ہی محبت کرنا اور بانٹنا ہے لیکن اب حالات شاید بدل رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ پنجابیوں کی محبت سردمہری کا شکار ہو جائے ہمارے دوسرے بھائیوں کو اپنے عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔
دشمن ملکوں کے آلہ کار بن کر اپنے محسنوں کی گردنیں کاٹنے کے عمل کو ترک کر کے احسان کا بدلہ احسان سے دینا ہوگا۔ یہی زندہ اور باغیرت قوموں کا وصف ہے اور تاریخ بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں