syed mujahid ali new 101

پاکستان میں حکمرانی کا نیا ماڈل= عمران خان + فوج

سید مجاہد علی

عمران خان کی یہ خوبی تو ان کے دشمنوں کو بھی ماننا پڑے گی کہ وہ لگی لپٹی کے بغیر بات کہہ دیتے ہیں کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ لیں یا کچھ بھی کرلیں ، ملکی حکومت یا اصل طاقت ور حلقے ، ان کے خلاف کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ سیاسی طاقت کے کھیل میں یہ سب کام اندازوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ عمران خان نے بھی کچھ اندازوں کی بنیاد پر موجودہ جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
ان میں سب سے پہلا اور اہم ترین اندازہ تو یہ ہے کہ وہ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور اگر آج انتخابات ہوجائیں تو وہ دوتہائی اکثریت سے اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی اپیل اور عوامی جلسوں میں حاضری کے کچھ اندازے ان کے حامی پیش کررہے ہیں اور کچھ قیاس عمران خان نے خود قائم کیا ہواہے۔ ان کا خیال ہے کہ انہوں نے اس ملک میں قابل فروخت بعض اجزائے ترکیبی کا ایک ایسا آمیزہ تیار کر رکھا ہے کہ ہر پاکستانی اسے خریدنے پر تیار ہے۔ اسی لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اقتدار سے نکالنے والے پچھتا رہے ہوں گے۔ اب اگر وہ تھوڑا دباؤ میں اضافہ کریں تو اسلام آباد مارچ سے پہلے ہی انہیں نئے انتخابات کی تاریخ دے دی جائے گی اور اس طرح اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ اس کی دھمکی سے ہی کام چل جائے گا۔
یہ سوال اب بے معنی ہوچکا ہے کہ عمران خان کیوں مقبول ہیں۔ کیوں کہ ان کی مقبولیت کسی میرٹ ، خوبی یا سیاسی کامیابی کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ نفرت، ضد اور پاکستانی عوام کی محرومیوں کے استحصال پر استوار ہونے والا ردعمل ہے۔ یہ بات تو اب عمران خان کے دوست دشمن سب ہی مان رہے ہیں کہ عمران خان کی ذاتی مقبولیت تو ان کی کرکٹ ہیرو شپ کی بنیا پر قائم فین کلب تک ہی محدود ہے تاہم اس میں چند نعروں نے بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ عمران خان نے اس تواتر سے بدعنوانی، مذہبی وابستگی اور قومی خودداری و آزادی کے نعروں کو استعمال کیا ہے کہ لوگوں کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ جو سوال اٹھائے جارہے ہیں اور ان کے جو حل پیش ہورہے ہیں، ان سے کیا واقعی مشکلات ختم ہوجائیں گی اور کیا واقعی ملک ایک بار ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔
یہ سوالات اس ملک میں پیدا ہوتے ہیں جہاں سیاسی کامیابی کے لئے واضح معاشی لائحہ عمل پیش کرنا ضروری ہو اور لوگوں کو دلیل کی بنیاد پر بتانا پڑے کہ کون سے اہداف کن طریقوں پر عمل کرتے ہوئے پورے ہوں گے۔ یعنی اگر عمران خان اس وقت قوم کو امریکی غلامی سے آزادی دلانے کی بات کررہے ہیں تو اصولی طور پر انہیں بتانا چاہئے کہ اس غلامی سے نجات مل گئی تو پاکستان کیسے اور کیوں کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا؟
عمران خان کی موجودہ آزادی تحریک اس ایک دعوے پر استوار ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر نے امریکی انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملاقات کے بعد ایک مراسلہ وزارت خارجہ بھیجا تھا جس میں پاکستان کی سیاسی پوزیشن کے حوالے سے تحفظات ظاہر کئے گئے تھے۔ اس مراسلہ کو جس کے مندرجات کبھی منظر عام پر نہیں لائے گئے اور نہ ہی کسی بھی طرف سے اس کی کوئی کوشش کی گئی ہے، عمران خان کے خلاف امریکی سازش کا نام دیا گیا اور ان کے حامی کورس کی صورت میں یہ راگ الاپنے لگے۔ اب نہ ملکی عدالت کے اشارے قبول ہیں، نہ قومی سلامتی کمیٹی کی وضاحت تسلیم ہے اور نہ ہی امریکہ کا یہ بیان قابل غور ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے والی ہر حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سازشی نظریے پر عمران خان کے نوجوان اور کم تجربہ کار حامی ہی دل و جان سے ایمان نہیں لائے بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ جنہیں سفارتی معاملات میں بھی قریب سے کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے، وہ بھی اس سازشی نظریے کو پھیلانے میں زمین آسمان کے قلابے ملارہے ہیں اور نت نئی دلیل لا کر ثابت کررہے ہیں کہ یہ سیاسی نعرہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے مد مقابل سیاسی لیڈروں کے بارے میں سالہا سال سے منفی پروپیگنڈا کے ذریعے عناد و دشمنی کی فضا بنا دی گئی ہے۔ دھڑلے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ شریف اور زرداری خاندان اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے، وہ چور ہیں ۔ اس لئے عمران خان ان سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ گویا عمران خان کا اپنا کوئی میرٹ نہیں ہے لیکن دوسروں کی ناکامیوں یا غلطیوں کی بنا پر پیدا ہونے والے ماحول میں عمران خان کو مسیحا سمجھ لیا گیا ہے۔
اس منفی طرز عمل کی دوسری مثال شہباز شریف کے دورہ مدینہ منورہ کے دوران مسجد نبوی میں رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعہ کے بعد دیکھنے میں آئی۔ پاکستانی مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سانحہ سے شدید دل گرفتہ تھا کہ جس مقام پر اونچی آواز میں بات کرنا بھی گستاخی شمار ہوتی ہو اور جہاں کسی قسم کی بے احتیاطی سے زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے کی بات کی جاتی ہو وہاں پر گالی گلوچ، دھکم پیل اور نعرے بازی کے حق میں نہایت ڈھٹائی سے دلائل لائے گئے اور انہیں قبول بھی کرلیا گیا۔ تحریک انصاف نے اس کارنامہ کا پورا کریڈٹ وصول کیا ، پھر نہایت صفائی سے لاتعلقی کا اظہار کرکے بدستور دینی شعائر کے ٹھیکیدار بھی بنے رہے ۔ اندازہ کیا جائے کہ یہ سانحہ اس ملک میں رونما ہوا ہے جہاں اسلامی شعائر کے بارے میں معمولی سی غیر محتاط گفتگو پر یا تو مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوسکتاہے یا ایسے کسی بدنصیب کو سال ہا سال تک جیل میں اپنے خلاف الزامات ثابت ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن عشاق کا ہجوم عمران خان کی سب بے ادائیوں کو معاف کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔
عمران خان کی سیاسی تحریک امریکہ سے آزادی کی بنیاد پر لڑی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑائی میں ہراول دستے کے طور پر سرگرم پاکستانی تارکین وطن ، امریکی اور یورپی ملکوں کی شہریت لے کر مستقل طور سے ان ملکوں کی غلامی کے عہد نامے پر دستخط کرچکے ہیں۔ لیکن کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ بھئی اب آپ کس کو کس سے آزاد کروانا چاہتے ہو؟۔
عمران خان کا آزادی کا ایجنڈا آسان و سادہ ہے۔ کہ مجھے اقتدار واپس دیاجائے تو سارے معاملات درست ہوجائیں گے۔ کسی جمہوری جد و جہد میں یہ پہلی مہم ہے جس میں کسی دوسرے کو فریق بننے کی اجازت نہیں ہے۔ حق وباطل کے اس معرکے میں عمران خان نے خود اپنے آپ کو ایک ایسے منصب پر فائز کرلیا ہے جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ تجزیہ نگار اسے ملک میں پیدا شدہ تقسیم کے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر عمران خان کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ملک میں صرف ایک ہی رائے ہے۔ دوسری رائے کو یا تو ختم کردیا جائے گا یا وہ خود ہی کنارہ کش ہوجائے گی اور کسی فارورڈ بلاک کی صورت میں عمران خان کے ہاتھ پر بیعت کرلے گی۔ جو نمایاں لیڈر باقی بچیں گے ، عمران خان انہیں خود ہی صفحہ ہستی سے مٹانے کا اہتمام کرلیں گے۔ گزشتہ روز میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اسٹبلشمنٹ سے جسے وہ اب نیوٹرل کہہ کرپکارتے ہیں، یہی شکوہ کیا ہے کہ آٹھ دس لوگوں کو طویل المدت سزائیں دلوا کر عمران خان کے اقتدار کو امر کیوں نہیں کیا گیا۔
سوچنا چاہئے کہ جب کوئی لیڈر اس حد تک پہنچ جائے کہ ان چوروں کو حکومت دینے سے بہتر تھا کہ ملک پر ایٹم بم پھینک دیا جاتا تو اس کی ذہنی حالت کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی۔ لیکن اس کے باوجود ہجوم عشاق اسے لیڈر کی ادا سمجھ کر خوشی سے تالیاں بجا رہا ہے۔ عمران خان ملک میں نفرت کاشت کررہے ہیں اور اس فصل میں خوب پھل لگتا دکھائی دے رہا ہے ۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ملک میں سر چڑھ کر بولنے والے اس جادو نما مقبولیت کے مقابل کوئی دوسری رائے نہیں ہے ۔ یہ رائے اس خاموش اکثریت پر مشتمل ہے جسے ماضی کی سیاسی قیادت نے بھی مایوس کیا اور جسے اب عمران خان اقتدار کی ہوس میں جوہری تباہی کے گڑھے میں پھینکے کو تیار ہیں۔
ملک کو عمران خان نامی تباہی سے بچانے کے دعوے دار بے بسی اور خاموشی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ فوج غیرجانبداری کا اعلان تو کررہی ہے لیکن اس لفظ کو طعنہ بنانے والے کو جواب دینے کی اہل نہیں ہے۔ ایسے میں بحران کا حل خود عمران خان نے ہی پیش کیا ہے۔ فوج پوری دل جمعی سے ہر قانونی یا غیر قانونی ہتھکنڈا استعمال کرکے انہیں اقتدار میں لائے، سیاسی دشمنوں کا قلع قمع کیا جائے کیوں کہ عمران خان انہیں چور قرار دے چکے ہیں ۔ پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ دیکھتے ہیں کہ ملک میں امن قائم کرنے کا یہ فارمولا کیوں کر ایک مخبوط الحواس شخص کو کامیابی دلوائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں