syed mujahid ali new 101

کون بڑا غدار ہے؟

سید مجاہد علی

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایبٹ آباد میں عمران خان کی تقریروں کو اداروں پر حملہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تمام قانونی و آئینی طریقے استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عمران خان نے سراج الدولہ کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کمانڈر انچیف میر جعفر انگریزوں کے مقابلے میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ اسی طرح میری حکومت کو آج کے میر جعفر و میر صادق کے ذریعے ختم کیا گیا ۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں تقسیم در تقسیم کو روکنے کے لئے عمران خان کو روکنا ہو گا۔
یہ تو معلوم نہیں کہ حکومت کیسے عمران خان کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار سے روک سکتی ہے۔ یہ حکومت تو ابھی صدر مملکت کو یہ بتانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی کہ وہ ایک پارلیمانی نظام میں کام کر رہے ہیں اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی کے منتخب وزیر اعظم کو آئینی تقاضوں کے بارے میں لیکچر نہیں دیتے بلکہ اس کی سفارش و ہدایت کے مطابق ربر اسٹیمپ کا کام کرتے ہوئے، وہی حکم صادر کرتے ہیں جس کی سفارش وزیر اعظم کی طرف سے کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو ہٹانے کی سمری بھیجی تھی۔ تاہم جب تحریک انصاف سے وابستگی کی بنا پر صدر عارف علوی نے اس سمری کو درخور اعتنا نہیں سمجھا تو گزشتہ ہفتے کے دوران وزیر اعظم نے عمر سرفراز چیمہ کو ہٹانے اور بلیغ الرحمان کو گورنر پنجاب مقرر کرنے کے لئے دوسری سمری روانہ کی تھی۔ آئینی ماہرین کے نزدیک موجودہ انتظام میں کوئی صدر وزیر اعظم کی دوسری سمری کے بعد اسے دس روز تک موخر کر سکتا ہے۔ پھر بھی اس پر عمل نہ کیا جائے تو وزیر اعظم کی سفارش کے مطابق کوئی تقرری خود بخود عمل میں آجاتی ہے۔
صدر عارف علوی البتہ خود کو آئین کا نگہبان قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کی ہدایت پر عمل سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی گورنر کو نہ تو صدر کی مرضی کے بغیر ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی شخص کو معقول وجہ کے بغیر گورنر کے عہدے سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ اس آئینی اصول کو بیان کرتے ہوئے صدر مملکت نے اس مکتوب میں وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ عمر سرفراز چیمہ پر نہ تو کسی قانون شکنی کا الزام ہے اور نہ ہی انہوں نے آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی کی ہے لہذا وزیر اعظم کو انہیں ہٹانے کا اختیار نہیں ہے ۔ اس تصویر کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی شخص آئین کو کیسے دیکھتا ہے۔ قانون و آئین کے پابند اسی گورنر پنجاب نے گزشتہ ہفتے کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پنجاب کا سیاسی بحران حل کرنے کے لئے مداخلت کرنے کی دعوت دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آرمی چیف انہیں ایک صوبیدار اور چند جوان فراہم کر دیں تو وہ ابھی منتخب وزیر اعلی حمزہ شہباز کو گرفتار کر لیں۔ نہ جانے آئین کی کون سی شق کے تحت بظاہر ایک علامتی عہدے پر فائز شخص ملکی فوج کے سربراہ کو صوبائی انتخابی عمل میں مداخلت کرنے اور چند فوجی سپاہی فراہم کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ اگر کوئی شخص اس قسم کی آئین شکنی کا مرتکب ہوتا ہے تو ملکی قانون اس کے ساتھ کیا سلوک کر سکتا ہے۔
فی الوقت تو آئین کے خود ساختہ محافظ عارف علوی ملک کے آئینی صدر کا کردار نبھانے کی بجائے عمران خان کے وفادار کا رول ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے نام خط میں انہوں نے عمر سرفراز چیمہ کو آئین کے محافظ کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا ہے۔ آئین کی نت نئی توجیہات کرنے اور سیاسی لڑائی کو ملکی سلامتی کا معاملہ بنانے والے کرداروں سے تو نہ جانے موجودہ حکومت کیسے نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لئے بغیر عمران خان کی حکومت ختم کر کے قائم ہونے والی کثیر الجماعتی حکومت ابھی تک ملکی حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اور موثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلی منتخب کروانے والے سیاسی لیڈروں کو اس پیچیدگی اور پاکستانیوں کے سماجی مزاج سے آگاہ ہونا چاہیے تھا۔ کمزور بنیاد پر استوار حکومت اب لاچاری اور بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ یہ کہہ دینے سے کہ ملکی صدر آئین پر عمل نہیں کرتا یا عمران خان سیکورٹی رسک بن چکا ہے، نہ تو حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملک کو سیاسی بحران اور سماجی انتشار سے بچایا جاسکتا ہے۔
شہباز شریف کو تقریریں کرنے یا اپنے وزیروں کے ذریعے دھمکیاں دینے کی بجائے عملی طور سے کوئی سیاسی منصوبہ سامنے لانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں سخت گیر انتظامی فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ موجودہ حکومت با اختیار ہے اور عمران خان یا کسی دوسرے شخص کی غیر قانونی سرگرمیوں پر کارروائی کے لئے اسے جی ایچ کیو کے اشارے کی ضرورت نہیں ہے۔ راولپنڈی کو بھی واضح کرنا ہو گا کہ وہ واقعی غیر جانبدار ہے اور کچھ عسکری عناصر بدستور عمران خان کی پشت پناہی نہیں کر رہے۔ فوج کو عملی طور سے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ غیرجانبداری کے اعلان پر سو فیصد عمل ہو رہا ہے اور جو بھی فوجی قیادت کے اس فیصلہ سے روگردانی کرے گا، اس سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
شہباز شریف کی حکومت نے عمران خان کی تمام تر اشتعال انگیز اور فتنہ پرور باتوں کے باوجود کسی قسم کی قانونی یا انتظامی کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ اس کم حوصلگی کو کوئی وجہ تو ہوگی۔ اگر حکومت کا دعوی ہے کہ وہ صرف سیاسی مصلحت اور درگزر سے کام لے رہی ہے تو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے پر جوش دعووں کے بعد عملی اقدامات ضروری ہوں گے تاکہ پاکستانی عوام کو واقعی یقین ہو سکے کہ ملک پر اس وقت ایسے لوگوں کی حکومت ہے جو تمام فیصلے کرنے میں خود مختار ہیں اور انہیں کسی راولپنڈی یا آب پارہ کے اشارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کا اعلان محض آئی ایس پی آر کے بیانات یا رانا ثنااللہ کے دھمکی آمیز ٹویٹ پیغامات سے نہیں ہو سکتا بلکہ حکومت کو اپنی رٹ ثابت کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یا پھر وہ سیاسی طور سے عمران خان کے سامنے سرنگوں ہو جائے اور فوری طور سے انتخابات کا اعلان کردے۔ یوں بھی اس وقت جن پارٹیوں نے حکومت سنبھالی ہوئی ہے وہ 2018 کے انتخابات کو جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دیتی رہی ہیں۔ جب آپ کسی منتخب اسمبلی کو جعل سازی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو اس میں سب پارٹیوں کی نمائندگی مشکوک ہوجاتی ہے۔ اسی شبہ کو دور کرنے کے لئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اب عمران خان یہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ سب سیاسی عناصر کے لئے قابل فہم ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم کی سفارش پر عمل درآمد میں روڑے اٹکانے والے صدر نے ہی سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی غیرآئینی رولنگ کے بعد تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے نتیجے میں عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی توڑنے کے فیصلے پر فوری تعمیل کی تھی۔ اس اہم اور سنگین معاملہ پر انہیں چند گھنٹے غور کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ جب ذاتی ترجیحات اور مفاد کے لئے ملکی آئین کے ساتھ دل لگی کرنے کی یہ صورت حال موجود ہو اور حکومت یا عدالتیں ملکی نظام اور آئین پر اس کے سنگین اور مہلک اثرات کا سدباب نہ کر رہی ہوں تو تصادم کی فضا میں اضافہ ناگزیر ہے۔ حکومت کے علاوہ اس وقت پورے نظام کو ہلا دینے کی کوشش میں مصروف عمران خان کو بھی ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسے طرز عمل کا کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ فرض کر لیا جائے کہ عمران خان اگر فوج کو دباو ٔمیں لاکر کسی طرح دوبارہ وزیر اعظم بن بھی جائیں تو وہ ملکی انتظام چلانے میں ناکام رہیں گے۔ چار سالہ دور حکومت میں وہ اپنی انتظامی ناکامی کے متعدد نمونے دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں خاطر جمع رکھنی چاہیے کسی نادیدہ سہارے کے بغیر وہ جلسوں اور سوشل میڈیا کے سارے جوش و ولولے کے باوجود وہ قومی اسمبلی کی بمشکل چالیس پچاس نشستیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ شاید اسی لئے انہیں انتخابات کی جلدی ہے تاکہ کسی طرح نومبر سے پہلے اقتدار میں آجائیں۔ سال رواں کا نومبر کیوں مقدس ہے، اس کی کہانی تو اب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
اسی تصویر کا ایک دلچسپ پہلو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے موقف میں سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی خوف کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ فوج نے عمران خان کی جتنی حمایت کی ہے، ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کبھی کسی حکومت کو ایسی حمایت فراہم نہیں کی ہوئی۔ اگر فوج اس کا بیس تیس فیصد اعانت بھی مسلم لیگ(ن) یا پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو فراہم کرتی تو ہم ملک کو فضا میں بلند کر دیتے ۔ اس ملک کے عام شہری کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ شہباز شریف فوج سے سیاسی مدد مانگ رہے ہیں یا اسے سیاست سے تائب ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے، فوج پر حملے کرنے والے عناصر کی سرکوبی کا اعلان کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے فوج کے سیاسی کردار پر بحث گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان سے بھی متصادم ہے کہ لیڈر و میڈیا فوج کو سیاسی مباحث میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں۔ ان حالات میں کوئی کیسے فیصلہ کرے گا کہ اس ملک میں کون بڑا غدار یا آئین شکن ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں