anwar sajdi 86

بھیانک تجربے کا ہولناک انجام

انور ساجدی

2018 میں جو بھیانک تجربہ کیا گیا اس کے ہولناک اور ناقابل تلافی نتائج سامنے ہیں اس تجربے کے نتیجے میں پاکستان 1950 کی دہائی میں پہنچ گیا ہے اس زمانے میں غذائی اجناس کی قلت تھی اور امریکہ گندم کی سڑی ہوئی فاضل پیداوار پی ایل480کے تحت پاکستان کو مفت فراہم کرتا تھا۔بھٹو کے آنے تک بھی راشن کا نظام موجود تھا لوگوں کو چینی گھی اور دیگر اشیا راشن بندی کے تحت راشن ڈپو پر ملتی تھیں جو کہ افراد خانہ کے اعتبار سے ملا کرتا تھا۔ 1972 سے 1977 تک بھٹونے زراعت کے فروغ کیلئے جو پالیسی بنائی اس نے پاکستان کو تمام اجناس میں خود کفیل بنادیا لیکن عمران خان کاپونے چارسالہ دور بہت بڑی تباہی لے آیا کیونکہ تحریک انصاف کی ناتجربہ کار حکومت کا سارا زورسیٹھوں کو سبسڈی دینے اور بلڈر زمافیا کو مراعات دینے پر تھا اس حکومت نے زراعت کو اس حد تک نظر انداز کیا کہ گندم اور چینی بھی درآمد کرنا پڑی یہ تو اپنی جگہ اگلے سال پاکستان کو چاول بھی درآمد کرنا پڑے گا کیونکہ دریائے سندھ سوکھ چکا ہے۔کپاس اور چاول کی فصل کیلئے پانی دستیاب نہیں ہے بھارت نے کئی درجن ڈیم بناکر پاکستانی دریاؤں میں پانی کانارمل بہا ؤروک دیا ہے جبکہ مون سون میں سیلابی ریلے پاکستان کی طرف چھوڑرہاہے۔
ریاست کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ایک طرف آئینی اور سیاسی بحرانوں کی شکار ہے تو دوسری جانب یہ معاشی طور پر کنگال ہوگئی ہے تحریک انصاف کی حکومت نے24ہزار ارب قرضے لیکر ریاست کی بنیادوں کو ہلادیا جبکہ یہ رقم ڈالر کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے بڑھ کر40ہزا رارب ڈالر ہوگئی ہے لہذا جو معاشی بحران ہے اسے حل کرنا موجودہ حکومت کے بس کا کام نہیں ہے اسے ایک سال کا وقت چاہئے اگر عمران خان نے حکومت چلنے نہیں دی اور فوری انتخابات کے انعقاد کیلئے اصرار کیا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ پاکستان دوست ممالک اور عالمی اداروں سے قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرے ورنہ اسے ڈیفالٹ کرنا پڑے گا سنا ہے کہ چینی قرضوں کی ادائیگی کی مدت آئندہ سال مارچ میں شروع ہوگی زیادہ امکان اس بات کا ہے چین قرضوں کی واپسی کی مدت میں اضافہ کردے گا ورنہ گوادر گیاویسے بھی گوادر کا جو معاہدہ ہے وہ خفیہ ہے اور معلوم نہیں کہ چین کو وہاں پر کس نوع کے حقوق دیئے گئے ہیں۔
ریاست کے جو بڑے جس بھونڈے طریقے سے جھرلو پھیرکر عمران خان کو اقتدار میں لائے تھے اسے نکالنے کا طریقہ اور زیادہ بھونڈا تھا اوپر سے اتنے سارے مقدمات اور اسکینڈلوں کے باوجود اسے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جہاں چاہے حملہ کرے اور جو مرضی گالم گلوچ کرے پاکستان میں دوہرے قانون کی ایک بڑی مثال ایم این اے علی وزیر کی جبری حراست ہے وہ ایک تقریر کرنے کے جرم میں بلاوجہ قید کی سزا بھگت رہے ہیں جبکہ عمران خان اور ساتھی سیاسی حریفوں اداروں حتی کہ بڑے بڑوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں وہ اسلام آباد کی جانب خونی مارچ کی بات بھی کررہے ہیں اور سپہ سالار کو بنگال کے میر جعفر کی طرح غدار کہہ رہے ہیں نہ صرف یہ کل ہی جہلم کے جلسہ میں میزبان فوادچوہدری نے کہا کہ فوری الیکشن کرا یا جائے ورنہ سری لنکا جیسی صورتحال کیلئے تیار ہوجاؤ اس کے باوجود حکومت اور بڑے ان پر ہاتھ ڈالنے سے کترارہے ہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ان کیخلاف مقدمات تک درج نہیں کئے گئے یہ وہ مخلوق ہے کہ اس نے مسجد نبویؓ کا تقدس پامال کردیا ، یہ جھوٹ اور یوٹرن کابھی استاد ہے عمران خان نے جہلم کے جلسہ میں کہا کہ انہوں نے میر جعفر شہبازشریف کو کہا تھا بھئی شہبازشریف کونسے سپہ سالار تھے کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر سازش کی یہ ڈر اور شف شف کیسا ان کا کہنا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو جلسہ میں اصل نام لینے سے کیوں ڈر گئے یہ تو بڑوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے بہت درگزرسے کام لیا اگر پنجاب کے تعلیمی اداروں کے بلوچ طالب علم اپنے حقوق کیلئے نعرہ لگاتے ہیں تو غائب ہوجاتے ہیں لیکن شیخ رشید اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کوئی سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ خونی مارچ انقلاب اور خانہ جنگی کی دھمکی دیں تو کوئی ان سے کچھ نہ کہے۔
شیخ رشید آج کل کافی بڑھکیں ماررہے ہیں لیکن ایک مرتبہ ایوب خان کے خلاف گرفتار ہوئے تھے تو سودفعہ معافی مانگ کر باہر نکلے تھے بہاول پور جیل والا واقعہ تو سب کو معلوم ہے اور رانا ثنا اللہ کی ایک تڑی کے بعد وہ ضمانت قبل از گرفتاری کروانے عدالت پہنچے ان کا یہ دعوی کہ جیل ان کا سسرال ہے سراسر جھوٹ ہے اگر انہیں اندر ڈال دیاجائے تو برداشت نہیں کرپائیں گے اسی طرح عمران خان نے بھی جلسہ میں اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیا یعنی وہ خوفزدہ تھے انہوں نے جو سیاسی وآئینی بحران پیدا کیا ہے آخر اس کا حل کیا ہے؟صدر علوی ریاست کے صدر کی بجائے تحریک انصاف کا کارکن بن کر کام کررہے ہیں صوبہ پنجاب کا گورنر حکم نہیں مان رہا جس کے نتیجے میں پنجاب کابینہ تشکیل نہیں پارہی ہے خود عمران خان 25لاکھ لوگ لیکر دارالحکومت پر یلغار کاپروگرام رکھتے ہیں اگر حکومت اور اسے لانے والے بے بس ہیں تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حکومت دوبارہ عمران خان کے حوالے کردیں۔
ن لیگ جو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے ہوئے ہے اس کی سٹی بھی گم ہے اوپر سے نوازشریف لندن میں بیٹھ کر دباؤ ڈال رہے ہیں اور احکامات جاری کررہے ہیں غالبا انہیں اپنے بھائی کی صلاحیتوں پر شک ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم اور پوری کابینہ کولندن طلب کرلیا ہے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے اس طلبی کا مقصد یہ ہے کہ کس طرح بڑے میاں صاحب اور اسحاق ڈار کی واپسی کا راستہ ہموار کیاجائے میاں صاحب کا خیال ہے کہ ان کی پاکستان میں موجودگی کے بغیر حکومت کامیابی کے ساتھ چل سکتی اور جب اسحاق ڈار موجود نہ ہوں تو معیشت کو چلانا مفتاح اسماعیل کے بس کا کام نہیں عمران خان نے تو یہ کہا ہے کہ نوازشریف اپنے بھائی سے اپنے لئے این آر او مانگ رہے ہیں نوازشریف کو چاہئے کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں اور بھائی کو چلنے دیں ان کا اپنا معاملہ تو عدالتوں میں جائیگا انہیں ایک دفعہ جیل جانا پڑے گا اس کے بعد ہی گلو خلاصی ہوگی۔
ویسے تو اس وقت کوئی بھی آئے معیشت چلنے والی نہیں ہے کیونکہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کہہ رکھا تھا کہ وہ ڈالر کو اوپن مارکیٹ میں 2سو روپے پر لائے گی ڈالر تیزی کے ساتھ اس طرف اڑان بھررہا ہے کیا بعید کہ اس کا ریٹ دوسو سے بھی بڑھ جائے اگر سعودی عرب نے تیل ادھار پر نہیں دیا تو رواں سال ہی تیل کی قیمتوں میں 80روپے کا اضافہ کرنا پڑے گا اسی طرح آئی ایم ایف سے طے شدہ معاہدہ کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کئی باراضافہ کرنا پڑے گا تحریک انصاف کی حکومت نے جاتے جاتے بجلی کے نظام کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا تھا جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ دوبارہ2010 کی سطح پر آگئی ہے بجلی کے کارخانوں کو چلانے کیلئے فرنس آئل اور ایندھن موجود نہیں ہے خدشہ ہے کہ موجودہ سیزن میں پورا ملک تاریکی میں ڈوب جائیگا ان تمام مسائل کو لیکر تحریک انصاف اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دے گی اور رائے عامہ کو اس کیخلاف بھڑکادے گی جس کے نتیجے میں عمران خان کی عوامی حمایت مزیدبڑھ جائے گی۔
جب اگلے سال کپاس نہیں ہوگی،چاول نہیں ہوگا،گندم نہیں ہوگی اور چینی دستیاب نہیں ہوگی تو کیا ہوگا کیونکہ آئندہ سال انتخابات کا ہے ان تمام بحرانوں کو اپنے گلے میں فٹ کرکے ن لیگ اور مولانا انتخابات میں کیسے کامیابی حاصل کریں گے اگرعمران خان کا راستہ نہیں روکا گیا تو ان کی کامیابی یقینی ہے جن عناصر نے جلد بازی میں عمران خان کو نکال کر اتحادی جماعتوں کو حکومت میں لانے کا فیصلہ کیا انہوں نے ان جماعتوں سے بدترین دشمنی کی ہے ،بھٹو نے جیل کی کال کوٹھری میںاپنی زندگی کے آخر میں جو آخری کتاب لکھی تھی اس میں کہا تھا کہ میرے بعد اس ملک میں ایسے آئینی سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہونگے کہ انہیں کوئی حل نہیں کرسکے گا۔
بھٹو کی یہ پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے اگریہ بحران زیادہ سنگین ہوگئے تو انارکی اور خانہ جنگی ناگزیر ہوجائے گی جس کے بعد ایسے حوادث رونما ہونگے کہ ملک کی وحدت کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی پاکستان کے لیڈر جس طرح 1971 میں لڑرہے تھے آج اسی طرح لڑرہے ہیں نتیجہ کیا ہوگا یہ وقت ہی بتاسکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں