171

کنگن پور،نذیراحمد زاہد ’’آنکھیں،بادل اور دریا‘‘ایک جائزہ

محمد ساجد

کنگن پورضلع قصور کے ادبی حلقوں میں نذیر احمد زاہد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔وہ پنجابی ادبی سانجھ، قصور کے بانی وسرپرست تھے۔وہ اس ادارے کو بہت محنت سے پروان چڑھاتے رہے۔انہوں نے یکم جنوری1960 میں کنگن پور میں جنم لیا۔یوں صابرعلی بسمل صاحب کے قصبے کی نسبت سے انہوں نے بھی دیار ادب کی راہ اختیار کی۔کنگن پور کی مردم خیزدھرتی نے بہت اعلی پائے کے ادیب،شاعر،دانش ور پیدا کئے جن میں نمایاں ترصابر علی بسمل،پروفیسر ڈاکٹر اختر حسین سندھو،پروفیسر ڈاکٹر عبادنبیل شاد ،چوہدری محمد امین سندھو(کالم نگار)علی انور احمد(مہان کہانی کار)ارشاد سندھو(مہان شاعر)پروفیسر علی بابر،اکرم ریحان(مشہور شاعر)وحید رضا،جاوید ساحر،فیصل انمول،نبیل نابر،حیدر شاہ اور دیگر بہت سے نام شامل ہیں ۔صابر علی بسمل کا چائے خانہ اور استاد حافظ فروغ الحسن قریشی کا کمرہ کنگن پور میں فروغ ادب کا معلم خانہ ثابت ہوئے۔نزیر احمد زاہد کی کتاب “آنکھیں،بادل اور دریا”ڈاکٹر عظمت اللہ خان عظمت جی(بانی،بلھے شاہ انٹرنیشنل فاونڈیشن ،قصور) نے جس محبت اور اپنائیت کے ساتھ دان کی،اس کے بعد میرے اوپر قرض تھا کہ میں اس شعری تصنیف پر مضمون قلم بند کروں۔صاحبو!عرض یہ ہے کہ یہ کتاب ایک حمد،دو نعت،ایک منقبت،چون غزلیات،گیارہ قطعات اور سترہ فردیات پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر عظمت اللہ خان عظمت کامضمون”اردو شاعری میں دبنگ لہجے کا صوفی شاعر” خاصے کی
چیز ہے۔خاص طور پر یہ جملہ” حمد و نعت سے لے کر نظم و غزل کا تمام شعری سفرنذیر احمد زاہدکی مشرقی فکرونظر،تجربات،مشاہدات کا بھر پور عکاس ہے۔وہ مصرعہ سازی کا کارخانہ نہیں کھولتا بلکہ فطری انداز میں شعر گوئی کرتاہے۔(صفحہ۔۱۳)ایک مصور اور فوٹو گرافر فطرت کے رنگوں کو نت نئے زاوئیے سے دیکھتا ہے۔اس کی حقیقی کے علاوہ خیالی دنیا بھی ہوتی ہے جو حقیقی سے کہیں زیادہ
خوب صورت ہوتی ہے۔نذیر احمد زاہد کا تعلق بھی اسی شعبہ حیات سے ہے۔کاہنہ نو کی پر رونق جگہ غلہ منڈی سے منسلک چائے خانے پر شام کے ڈوبتے سائے میں بوڑھے صنوبر تلے بیٹھ کر چوہدری محمدامین سندھو صاحب (ڈی ڈی ای او،قصور)نے بتایا کہ نذیر احمد زاہد ایک ان پڑھ آدمی ہے اور ایک فوٹو گرافر ہے تو مجھے حیرانی ہوئی کہ ایک ناخواندہ شخص کیسے الفاظ کی جادو گری سے نت نئے علم خزئینے نکال لاتا ہے۔یہ شعر وادب سے محبت ہے جو نذیر احمد زاہد کو عظمت دے رہی ہے۔دورانِ مطالعہ چند اشعار نے توجہ کھینچ لی۔آپ بھی سنئیے۔
فرصت کی چند گھڑیاں بھی میرے نام ہوں
جتنی بھی دیر بیھٹے مجھ سے جدا نہ ہوکوئی
………………
بے خودی میں خود کو ترے نام کر گیا ہے
یہ فیصلہ بھی وہ سر عام کر گیا ہے
………………
میںدن کو دیکھتا ہوں تارے زمین پر بھی
زلفیں گرا کے کر جو دی ہے شام کسی نے
………………
نہ وفا کے سلسلے کی بدولت ملا مجھے
جیون تو حادثے کی بدولت ملا مجھے
………………
زمانہ تو جانے ہے زاہد کا قصہ
تجھے گر سنایا نہیں تو کیا ہے
………………
بالا پانچ اشعار اپنے بیانیے کے لحاظ سے ایک کہانی مکمل کرتے نظر آتے ہیں۔نذیر احمد زاہد کے خیال و خواب کی جولانی گاہ ان کی تیشہ مزدوری سے وابستہ ان کے ارمان ہیں جو اشعار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔نذیر احمد زاہد نے کنگن پور میں اپنا الگ تشخص برقرار رکھا ۔روکھی سوکھی کھا کر ،محنت مزدوری کرکے ادب کی خدمت کرتا رہا۔مزدور زاہد،مصور زاہد،فوٹو گرافر زاہد اور شاعر زاہد کے جمع کرنے سے نذیر احمد زاہد کی تکمیل ہوتی ہیجس کے قلم کی چاشنی کنگن پور کے شعری افق کو روشن کرتی ہے۔بقول زاہد
عشق اتنا آساں نہیں زاہد
درد ایسا ہے کہ جواب نہیں
………………
افسوس ہے کہ یہ مضمون نذیر احمد زاہد صاحب کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔آپ 25’جنوری2018 کو وفات پا گے۔پرانے کاغذات سے دستیاب ہوا۔شکریہ مدیر اعلی ،افتخار نتھی میو صاحب’ کا انہوں نے مضمون چھاپ دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں