Aman ullha Shah Zaie 122

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: بلوچ قوم پرستی کا یک باب بند ہوگیا!

امان اللہ شاہ یزئی

عبدالحئی بلوچ سے تعارف اس وقت ہوا جب وہ بی ایس او کے چیئرمین تھے اور مجھ پر اسلامی جمعیت طلبہ بلوچستان کی نظامت کی ذمے داری تھی۔ اس وقت وہ ڈا میڈیکل کالج کے طالب علم تھے اور ہر امتحان میں فیل ہوتے تھے تاکہ طلبہ کی دنیا سے ان کا تعلق قائم رہے۔ بالآخرکالج کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ حئی بلوچ کو کسی بھی صورت فیل نہیں ہونے دیا جائے گا تاکہ ان کی تعلیمی دور کی لیڈرشپ ختم ہوجائے۔ اس کے بعد وہ نیپ میں شامل ہوگئے اور 1970 میں قلات سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔ انہوں نے خان قلات کے صاحبزادے محی الدین کو شکست دی، اور ایک اور صوبائی نشست پر شہزادہ کریم نے خان قلات میر احمد یار خان کے بیٹے کو شکست دی انہوں نے اپنے بھتیجے کو شکست دی۔ یوں نیپ نے ایک خاص منصوبے کے تحت یہ قدم اٹھایا۔ اس منصوبے کا ایک پس منظر تھا۔
سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کا منصوبہ تھا کہ بلوچستان اور افغانستان میں کمیونسٹ قوت کو منظم کیا جائے، اور بلوچستان میں بھی کمیونزم کو طاقتور بنایا جائے، اور پھر دونوں حصوں میں کمیونسٹ انقلاب برپا کیا جائے۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کا منصوبہ تھا کہ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب برپا کرکے منظم ہوا جائے اور دوسرے مرحلے میں بلوچستان کے 750 کلومیٹر سمندر پر قبضہ کیا جائے۔ زارِ روس کے دور سے یہ منصوبہ تھا، اور لینن کے دور میں روس ایک کمیونسٹ ملک بن گیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ افغانستان پر قبضہ کرکے اسے ایک کمیونسٹ ملک میں تبدیل کرنا تھا۔ 1972 میں اس کا آغاز ہوا جب سردار داؤد نے اپنے بہنوئی ظاہر شاہ کا اس وقت تختہ الٹ دیا جب وہ روم کے دورے پر تھے، یہ عمل کمیونسٹ پارٹی کے منصوبے کے تحت ہورہا تھا۔ 1973 میں کمیونسٹوں نے سردار داؤد کو تختِ کابل پر براجمان کردیا۔ اس کے بعد کمیونسٹوں نے سردار داؤد کی حکومت پر شب خون مارا اور سردار داؤد کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا، اور نور محمد ترہ کئی صدرِ افغانستان بنادیئے گئے، یوں افغانستان پہلا اسلامی ملک تھا جہاں کمیونزم نافذ کردیا گیا۔
کمیونسٹ پارٹی کا طریقہ واردات ایسا ہی رہا ہے، اور اس منصوبے کے تحت کابل ان کے ہاتھ میں آگیا۔ نیپ اور بی ایس او کے لیڈر اور کارکنان افغانستان جانا شروع ہوگئے، اس کے بعد کیا ہوا اب وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ افغانستان کے کمیونسٹ مارکسسٹ انقلاب، اور ایران میں اسلامی انقلاب پر سیکڑوں مرتبہ تجزیہ کیا ہے اور مختلف تقاریب میں اس پر کھل کو بول چکا ہوں، اب یہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ مختصر سا تجزیہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی حادثاتی موت کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں وہ بی ایس او کے چیئرمین تھے اور مجھ پر اسلامی جمعیت طلبہ بلوچستان کے نظم صوبہ کی ذمہ داری تھی، کوئٹہ کا ناظم تھا تو جمعیت صرف کوئٹہ میں تھی۔ جب صوبے کی ذمہ داری آگئی تو اپنے منصوبے کے تحت اسلامی جمعیت طلبہ کے نظم کو کوئٹہ کے تمام ہائی اسکولوں کے یونٹوں میں قائم کیا۔ اس کے بعد مستونگ، لورالائی، نوشکی، خضدار میں جمعیت کے یونٹ قائم کردیئے۔ اس دوران بی ایس او کے دوستوں سے تعلق قائم رہا۔ عزیز بگٹی، خیر جان بلوچ و دیگر لیڈروں سے رابطہ رہا۔ ایک دن ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سے کیفے بلدیہ میں دلچسپ بحث اور جھڑپ ہوگئی۔ جمعیت چونکہ پیش قدمی کررہی تھی اس لیے بی ایس او پریشان تھی۔ ڈاکٹر صاحب بی ایس او کے کارکنوں کے ہمراہ تھے کہ میری ملاقات ان سے ہوگئی اور بحث چھڑ گئی۔ انہوں نے مجھ سے کہاکہ آپ لوگ رجعت پسند ہیں۔ میرا جواب تھا کہ آپ لوگ رجعت پسند ہیں، آپ کی تنظیم میں صرف بلوچ آسکتے ہیں، جبکہ جمعیت آپ سے زیادہ پروگریسو ہے، اس میں ہر قوم اور ہر زبان بولنے والے طالب علم آسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے جلال اور غصے کی کوئی انتہا نہ تھی۔ بحث بڑھ رہی تھی اور حالات کشیدہ ہورہے تھے۔ ان کے دوستوں نے کہاکہ ڈاکٹر صاحب! شادیزئی دلائل پر دلائل دے رہا ہے، اس لیے اس بحث کو ختم کریں۔ اس طرح ہماری نشست بحث کی تلخی میں ختم ہوگئی۔
1988 میں بی ایس او نے قومی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ بی این ایم بنادی گئی اور بی ایس او کے تمام طالب علم اور مختلف شخصیات اور
دھڑے اس میں شامل ہوگئے اور انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ سردار اختر مینگل بھی اس میں شامل ہوئے اور سیاست میں سرگرم ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی دوران نواب اکبر بگٹی نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک نواب اکبر بگٹی نے اپنی سیاسی پارٹی نہیں بنائی تھی، جبکہ مرحوم غوث بخش بزنجو کی مخالفت بی ایس او کررہی تھی جس کے چیئرمین ڈاکٹر حئی بلوچ تھے۔ وہ بھی غوث بخش بزنجو کے سخت مخالف تھے۔ یوں تاریخ کا عجیب و غریب اتحاد وجود میں آگیا۔ ایک نواب اور ایک سیاسی پارٹی نے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ تاریخی تضاد تھا۔ اس دوران سردار عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی ایک پیج پر آگئے۔ نواب اکبر بگٹی جنہوں نے سردار عطا اللہ مینگل کی سیاست اور حکومت کو شدید نقصان پہنچایا تھا ایک ہوگئے، اور دونوں نے مل کر غوث بخش بزنجو کو شکست دینے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر غوث بخش بزنجو کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ ایک نشست پر منظور بلوچ نے انہیں شکست دی۔ اس طرح غوث بخش بزنجو کے شاگردوں نے استاد کی سیاست کا دامن تار تار کردیا اور غوث بخش نے بھی بی ایس او سے تعلق توڑ لیا، انہوں نے ڈی ایس ایف کی سرپرستی شروع کردی اور حلف برداری میں شریک ہوئے۔ یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ نواب مری، نواب بگٹی، سردار مینگل ان کے سیاسی شاگرد تھے اور بی ایس او طالب علموں کی تنظیم تھی، اس میں بھی ان کے شاگرد تھے۔ ان تمام شاگردوں نے اپنے سیاسی استاد کی سیاسی قبر کھود ڈالی۔ یوں قوم پرست سیاست کا المناک انجام ہوا۔ بعد میں بی ایس او کے طالب علموں نے ڈاکٹر عبدالحئی کو بی این ایم کی سربراہی سے فارغ کردیا۔
بلوچستان میں قوم پرست سیاست کے تضادات اور انحرافات کی ایک المناک اور عبرتناک داستان ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ ایک ملاقات میں راقم نے ڈاکٹر مالک سے کہاکہ آپ لوگوں نے ڈاکٹر عبدالحئی سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا، ان کو رسمی طور پر سہی، اپنا سرپرست بنالیتے تو ٹھیک ہوتا۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی پارٹی بنالی لیکن وہ صرف کاغذوں پر تھی۔ ڈاکٹر صاحب سینیٹر بھی رہے۔ اب ان کی موت نے قوم پرست سیاست کا ایک باب بند کردیا ہے۔
بلوچستان میں قوم پرست سیاست کا باب بڑا المناک ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست مرکز کی سیاست میں ہمیشہ استعمال ہوئے ہیں، اور خاص طور پر پنجاب نے قوم پرست سیاست دانوں اور پارٹیوں کو ربڑاسٹیمپ کی طرح استعمال کیا۔1970 میں بلوچستان کی سیاست پنجابی شاونزم میں استعمال ہوئی ہے، یہ کھیل بڑی ذہانت اور شاطرانہ طریقے سے کھیلا گیا ہے۔ نواب اکبر بگٹی اور سردار عطاء اللہ مینگل میں کشمکش اور اختلافات ہوئے۔ نواب اکبر بگٹی بھٹو کی سیاست کے اسیر ہوئے اور عطاء اللہ مینگل کی صوبائی حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد میں سردار عطاء اللہ مینگل اور ان کے بیٹے نواب اختر مینگل نے نواب اکبر بگٹی کی حکومت کو ختم کرنے میں نوازشریف کا ساتھ دیا۔ بعد میں سردار اختر مینگل کی حکومت کو نوازشریف نے ختم کردیا۔ محمود خان اچکزئی کی پارٹی بھی ہمیشہ پنجابی لیڈرشپ کے لیے استعمال ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سے کئی دفعہ گزارش کی کہ وہ اپنی خودنوشت لکھیں، تو انہوں نے کہاکہ لکھ نہیں سکتا۔ اس پر ان سے کہاکہ آپ اپنی یادداشتوں کو ٹیپ کرلیں تو ایک تاریخی باب ہوگا۔ اس پر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے۔ ایک بار نواب اکبر بگٹی سے کہا تو انہوں نے کہاکہ ڈیرہ بگٹی آجائیں اور میرے ساتھ ایک مہینہ رہیں تو آپ کو سب کچھ بتادوں گا، اور کہاکہ آپ لکھتے ہیں تو میری داستان قلم بند کرلیں، میں وہ سب کچھ بتادوں گا جو میرے سینے میں ہے۔ وہ ہمیشہ اصرار کرتے تھے اور میری حماقت کہ وقت نہیں نکال سکا۔ اس طرح ایک اہم باب ہمیشہ تشنہ رہے گا۔ اب حئی بلوچ کی موت نے ایک اور اہم باب ادھورا چھوڑدیا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں ڈھانپ لے، ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں سے تعزیت کرتا ہوں۔ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی تاریخ کا ایک اور اہم باب بہت سے تاریخی راز بن کہے بند ہوگیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں