Fire Autmatically 156

لاش میں خودبخود آگ بھڑک اٹھی، دل دہلا دینے والا کیس

دنیا بھر کی پولیس کو بعض اوقات ایسے کیسز سے واسطہ پڑتا ہے جو ان کا ذہن گھما کر رکھ دیتے ہیں، ایسا ہی ایک کیس فلوریڈا پولیس کے سامنے آیا جس میں لاش گھر کے اندر پڑی جل کر راکھ ہوگئی مگر گھر کے کسی سامان کو کچھ نہیں ہوا۔

یہ جولائی 1951 کی ایک صبح کی بات ہے جب فلوریڈا کے علاقے ٹمپا بے کے ایک اپارٹمنٹ کی مالکہ پنسی کارپینٹر کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جو ان کی ایک کرائے دار کے لیے تھا۔ وہ ٹیلی گرام لے کر اپارٹمنٹ میں گئیں اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں ملا، جس پر انہوں نے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔

جب انہوں نے دروازے کی ناب کو چھوا تو وہ ناقابل برادشت حد تک گرم ہورہی تھی، پنسی کارپنٹر کو معاملہ مشکوک لگا تو وہ اپنے اپارٹمنٹ واپس گئیں اور پولیس سے رابطہ کیا۔

جب پولیس اہلکار وہاں پہنچے اور 67 سالہ میری ریسیر کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو ان کا سامنا اپنی زندگیوں کے سب سے پراسرار کیس سے ہوا۔

معمر خاتون کرسی پر تھیں بس ہوا یہ تھا کہ زندہ یا لاش کی شکل میں نہیں بلکہ راکھ کی صورت میں، اگر بایاں پیر، کھوپڑی اور ریڑھ کی ہڈی کا کچھ حصہ باقی نہیں بچتا تو کوئی بھی یہ بتا نہیں پاتا کہ یہ کسی انسان کی راکھ ہے۔

اس خاتون کا لگ بھگ پورا جسم جل کر خاک ہو گیا تھا مگر حیران کن طور پر ان کی کرسی کے باقی بچ جانے والے اسپرنگز کے برابر میں اخبارات کا ڈھیر بالکل ٹھیک حالت میں موجود تھا۔

اپارٹمنٹ کا تمام فرنیچر، قالین، دیواریں درست حالت میں تھے، آتشزدگی کی واحد نشانی کچھ پلاسٹک مصنوعات کے نرم ہونے اور چھت پر حرارت اور دھوئیں سے بننے والے کچھ نشانات تھے۔ یعنی میری ریسیر اپنی نشست گاہ کے وسط میں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔

میری ریسیر کی پیدائش 8 مارچ 1884 کو ریاست پنسلوانیا کے علاقے کولمبیا میں ہوئی اور اپنے شوہر کی موت کے بعد وہ سینٹ پیٹرز برگ، فلوریڈا منتقل ہوکر اپنے بیٹے اور اس کے خاندان کے قریب مقیم ہوگئیں۔

میری کو فلوریڈا کا گرم موسم پسند نہیں تھا، وہ تمباکو نوشی کرتی تھیں اور نیند کی گولیاں بھی کھاتی ہیں۔ اپنی موت سے پہلے بیٹے سے ملاقات میں انہوں نے اپنی شکایات بیان کیں اور واپس پنسلوانیا جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔

وہ فلوریڈا کے گرم موسم سے بھاگنے کی خواہشمند تھیں اور ان کے لیے جو ٹیلی گرام بھیجا گیا تھا وہ پنسلوانیا کے ٹرپ کے انتظامات مکمل ہونے کے بارے میں ہی تھا۔

سینٹ پیٹرز برگ کی پولیس نے اس کیس میں 5 دن میں اپنی شکست تسلیم کرلی۔

یہ خاتون یقیناً جل کر خاک ہوئی تھیں جس کے لیے 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کے باوجود کمرے میں آتشزدگی کے لگ بھگ کوئی شواہد نہیں تھے۔

جلنے کے بعد میری ریسیر کی کھوپڑی سکڑ کر بہت مختصر ہوگئی تھی جس نے تحقیقات کو مزید پیچیدہ بنادیا، کیونکہ شدید درجہ حرارت سے کھوپڑی سکڑنے کے بجائے پھیلتی ہے بلکہ پھیل کر پھٹ جاتی ہے۔

عمارت میں کسی کو بھی آگ کا علم نہیں ہوا بس پنسی کارپینٹر کو صبح 5 بجے کے قریب دھوئیں کی بو محسوس ہوئی تھی مگر وہ انہیں اپنی ناقص برقی مصنوعات کا نتیجہ لگا۔

پولیس اس موت کے حوالے سے بس ایک بات کی تصدیق کر سکی اور وہ تھا موت کا وقت صبح ساڑھے 4 بجے، وہ بھی اس وجہ سے کیونکہ گھڑی پر وقت ساکٹ پگھلنے کی وجہ رک گیا تھا۔

7 جولائی کو پولیس کے سربراہ نے میری ریسیر کے باقی بچے جانے والے پیر، 6 چھوٹی چیزیں جن کو دانت خیال کیا گیا، قالین کا ٹکڑا اور راکھ میں ملنے والے شیشے کے ذرات ڈبے میں ڈال کر ایف بی آئی ڈائریکٹر ایڈگر ہوور کو بھیج دیے۔

اس ڈبے کے ساتھ انہوں نے مراسلے میں لکھا کہ ہمیں ایسی تفصیلات یا خیالات جاننا ہیں جن سے وضاحت ہوسکے کہ ایک چھوٹی سی بند جگہ میں انسانی جسم جل کر خاک ہوجائے مگر اس سے ہٹ کر عمارت کے اسٹرکچر اور فرنیچر کو کوئی بھی نقصان نہ ہو، یہاں تک دھوئیں کے بھی آثار نہ ہونے کے برابر ہوں۔

متعدد ہفتوں بعد ایف بی آئی نے اس کیس کو وک افیکٹ کا نتیجہ قرار دیا، جس کی وجہ خاتون کے آگ پکڑنے والے نائٹ گاؤن، ان کی سگریٹ اور نیند کی گولیوں کا امتزاج تھا۔

ایف بی آئی رپورٹ کے مطابق ایک بار جب جسم جلنا شروع ہوتا ہے تو اس میں اتنی چربی اور دیگر آگ پکڑنے والے اجزا ہوتے ہیں جو کئی طرح کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، کئی بار یہ جلنے سے ہونے والی تباہی اس درجے کی ہوتی ہے کہ انسانی جسم لگ بھگ مکمل طور پر جل کر خاک ہوجاتا ہے۔

پولیس سربراہ جے آر راکیرٹ نے انسانی جسم کے ایک ماہر ولٹن کروگمین سے بھی تحقیقات کی درخواست کی اور انہوں نے ایف بی آئی کے نتائج کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ ایک بار انسانی جسم جلنے لگے تو وہ خود کو مکمل طور پر راکھ بنالے، جیسے کوئی شمع جل کر پگھل جاتی ہے اور بس پگھلے ہوئے موم کے کچھ ذرات ہی بچتے ہیں۔

راکیرٹ کا کہنا تھا کہ اس رات جو کچھ بھی ہوا اس کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی کچھ نہ جان سکیں مگر یہ کیس اب بھی مجھے ڈراتا ہے، یعنی ایک انسان مکمل طور پر جل کر راکھ ہوجائے اور اس کے اپارٹمنٹ کو کچھ بھی نہ ہو، ایسی صورت میں تو اس پوری جگہ کو جل جانا چاہیئے تھا۔

یہ رپورٹ 1961 میں شائع ہوئی تھی اور اس کیس کے بارے میں مزید جوابات سامنے نہیں آئے۔ پولیس چیف نے ایک بیان میں اسے اپنے 25 سالہ کیریئر کا سب سے غیر معمولی کیس قرار دیا۔

اس کیس کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔

ایک نظریہ تو یہ سامنے آیا کہ یہ واقعہ کسی وجہ کے بغیر انسانی جسم کے خود جل کر راکھ ہونے کا نتیجہ ہے اور 70 سال بعد بھی اس کیس کے حوالے سے اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے۔

ایسے کیسز میں ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی شے آگ بھڑکنے کے باہری ذریعے کے بغیر جل کر خاک ہوجائے۔

میری ریسیر سے ہٹ کر بھی اس طرح کے کیسز سامنے آئے ہیں اور ان کیسز کی تحقیقات بھی کوئی ٹھوس جواب دینے میں ناکام رہی، یعنی یہ ہضم کرنا ہی مشکل ہے کہ کوئی انسان اچانک ہی کسی وجہ سے جلنا شروع ہوجائے۔

مگر ایف بی آئی نے میری ریسیر کے کیس میں اس خیال کو ٹھوس انداز سے مسترد کردیا تھا۔

ایف بی آئی نے جو خیال پیش کیا وہ زیادہ دہشت زدہ کردینے والا ہے یعنی وہ خاتون کسی موم بتی یا شمع کی طرح آہستہ آہستہ جل کر راکھ بن گئی۔

اگر آگ لگنے پر وہ پہلے ہی مر چکی تھیں (فالج یا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے) یا بے ہوش یا حرکت کرنے سے قاصر تھیں (نیند کی ادویات کے اثر کے باعث)، تو یہ آسانی سے خیال کیا جاسکتا ہے کہ جلتا ہوا سگریٹ گرا ہو اور ان کو جلانا شروع کردیا ہو۔

مگر اس نظریے کے درست ہونے میں مسئلہ یہ ہے کہ آخر اپارٹمنٹ اور پوری عمارت اتنی زیادہ حرارت (3 ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ) سے متاثر کیوں نہیں ہوئی اور کھوپڑی کیوں سکڑ گئی؟

اس موت کے ایک دہائی سے زائد عرصے بعد ولٹن کروگمین نے ایک متبادل تھیوری پیش کی اور وہ یہ تھی کہ ہوسکتا ہے کہ خاتون کو کسی اور جگہ قتل کر کے جلایا گیا ہو اور پھر راکھ واپس اپارٹمنٹ میں پہنچا دی گئی ہو؟

ان کے مطابق مبینہ قاتل کو انسانی جسم جلانے والے آلات تک رسائی ہو اور خاتون کو راکھ بنانے کے بعد باقیات کو واپس اپارٹمنٹ تک پہنچا دیا ہو۔ مگر اس خیال پر بھی متعدد سوال سامنے آئے جیسے اپارٹمنٹ میں پلاسٹک کا کچھ سامان نرم کیوں ہوگیا اور دروازے کی ناب بہت زیادہ گرم کیوں تھی۔

اب تک اس کیس سے جڑے سوالات کا کوئی تشفی بخش جواب سامنے نہیں آیا اور اتنے برسوں بعد بھی یہ کیس جدید تاریخ کے چند حل طلب اسرار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں