11 people suicide 116

ایک ہی گھر کے 11 افراد کی خودکشی کا کیس جس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا

نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے علاقے براری، سنت نگر میں یہ ایک معمول کی صبح تھی، لوگ صبح اٹھ کر اپنے کام کے لیے روانہ ہورہے تھے، محلے کی دودھ کی دکان تاحال بند تھی اور اکا دکا افراد وہاں کا چکر لگا کر جاچکے تھے۔

محلے کے ایک بزرگ نے دکان کے مالک کا، جس کا گھر قریب ہی واقع تھا، دروازہ کھٹکھٹانا چاہا لیکن دروازہ کھلا ہوا تھا، وہ دروازہ کھول کر اس منزل پر چلے گئے جہاں بھاٹیہ خاندان کی رہائش تھی، اور وہاں ایک لرزہ خیز منظر ان کا منتظر تھا۔

پورا کا پورا خاندان ڈوپٹوں سے بندھا ہوا چھت کی جالی سے لٹک رہا تھا، یہ ایسا منظر تھا کہ بزرگ کی خوف سے گھگھی بندھ گئی اور وہ الٹے قدموں واپس لوٹے، آن کی آن میں پورے علاقے کو پتہ چل چکا تھا کہ بھاٹیہ خاندان کے تمام افراد نے اجتماعی خودکشی کرلی، صرف آدھے گھنٹے کے اندر یہ بریکنگ نیوز تمام چینلز پر چل رہی تھی اور لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو علاقے میں جمع ہوچکا تھا۔

امریکی ویڈیو اسٹریمنگ پلیٹ فارم نیٹ فلکس نے اس ہولناک واقعے پر دستاویزی فلم بنائی ہے جو دیکھنے والوں کو خوف اور سنسنی سے دو چار کر رہی ہے۔

یکم جولائی سنہ 2018 کو پیش آنے والے اس خوفناک واقعے پر بنائی گئی ڈاکومنٹری کا نام ہاؤس آف سیکرٹس دی براری ڈیتھس ہے جس میں اس واقعے کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔

اپنے گھر میں مردہ پائے گئے ان 11 لوگوں کی کانوں میں روئی ٹھنسی ہوئی تھی، آنکھوں پر کپڑا اور منہ پر ٹیپ بندھا ہوا تھا جبکہ ہاتھ پاؤں تار سے بندھے ہوئے تھے۔ خاندان کی سب سے بزرگ رکن اسی حالت میں اپنے بستر کے برابر میں موجود تھیں، مرنے والوں میں 7 خواتین اور 4 مرد شامل تھے جن میں دو نو عمر لڑکے بھی تھے۔

پولیس نے ابتدا میں ہی جان لیا کہ گھر میں زبردستی کسی کے گھسنے، زہر دینے یا کسی ناخوشگوار واقعے کے آثار موجود نہیں تھے، تاہم جس طرح سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے تھے انہیں دیکھ کر یہی خیال آتا تھا کہ یہ کسی قاتل کا کام ہے، خاندان کے دیگر افراد نے بھی پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس کی قتل کے طور پر تفتیش کی جائے۔

سیریز میں دیگر خاندان والوں، دوستوں اور محلے داروں سے گفتگو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ خاندان خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا، ان کا کاروبار ترقی کر رہا تھا اور بظاہر کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ کوئی اس خاندان میں خودکشی کے بارے میں سوچتا۔ نئی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی جبکہ چند دن پہلے ہی گھر میں ایک لڑکی کی دھوم دھام سے منگنی بھی کی گئی تھی اور دو ہفتوں بعد اس کی شادی طے کی گئی تھی۔

بعد ازاں پولیس کو گھر سے 11 ڈائریاں ملیں جس سے اس کیس کی گتھیاں کھلنا شروع ہوئیں، یہ 11 ڈائریاں گزشتہ 10 سال کے دوران لکھی گئی تھیں۔

سنہ 2018 کی ڈائری کے آخری صفحات میں اس خودکشی کا پورا احوال موجود تھا جس نے سب کو چونکا دیا۔ ڈائری کے مطابق اس خودکشی کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا جس کی ایک ایک تفصیل قلمبند کی گئی تھی۔

بعد ازاں پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں کی جانب سے جو رپورٹ مرتب کی گئی اس کے مطابق اس واقعے کا ذمہ دار خاندان کا چھوٹا بیٹا للت بھاٹیہ تھا۔

للت اوائل جوانی میں بائیک کے ایک حادثے کا شکار ہوا تھا جس میں اس کے سر پر چوٹ آئی تھی، اس حادثے میں وہ کئی روز تک اسپتال میں زیر علاج رہا اور اس کے بعد اس کی ذہنی حالت میں تبدیلی آئی تھی۔

اس کے کئی سال بعد وہ ایک اور حادثے سے گزرا، وہ جس دکان میں کام کرتا تھا وہاں کے مالکان سے اس کا جھگڑا ہوا اور اسے تشدد کا نشانہ بنا کر کمرے میں بند کردیا گیا، یہی نہیں اس کمرے کو آگ بھی لگا دی گئی جہاں للت بے ہوش پڑا تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد للت نے کسی طرح اپنے بڑے بھائی کو فون کر کے اس کی اطلاع دی اور یوں اس کی جان بچائی جاسکی۔

اس واقعے کا للت کے دماغ پر بہت گہرا اثر ہوا، وہ شدید ٹراما میں چلا گیا اور اس کی قوت گویائی مفلوج ہوگئی، محلے داروں کے بعد للت کئی سال تک اشاروں کی مدد سے اور لکھ کر گفتگو کیا کرتا تھا، اور پھر کچھ سال بعد اس کی قوت گویائی لوٹ آئی جسے اس کے گھر والوں اپنی مستقل عبادت کا نتیجہ قرار دیا۔

ڈائریوں کے مطابق اس کے کچھ عرصے بعد للت نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس کے مرحوم والد کی روح اس میں آجاتی ہے اور اس سے باتیں کرتی ہے، تمام گھر والوں نے اس کی بات پر یقین کرلیا۔

ماہرین نفسیات کے مطابق خود پر حملے کے بعد للت جس ٹراما سے گزر رہا تھا اس کے نتیجے میں وہ سائیکوسس نامی ذہنی مرض کا شکار ہوگیا تھا، اس مرض میں مریض کو حقیقت سے ماورا چیزیں دکھائی اور سنائی دینے لگتی ہیں، وہ حقیقت سے دور ہوجاتا ہے اور اس کے ذہن کی کارکردگی بے حد متاثر ہوتی ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ اگر اس موقع پر للت کے جسمانی علاج کے ساتھ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دی جاتی تو یہ خاندان آج بھی زندہ ہوتا۔

للت کو سنائی دی جانے والی آوازوں میں دی گئی ہدایات گزشتہ 10 سال سے ڈائریوں میں نوٹ کی جارہی تھیں اور پورا خاندان آنکھیں بند کر کے اس پر عمل کر رہا تھا۔

ان ہدایات میں مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری اور کاروبار کے حوالے سے ہدایات شامل تھیں جو خاندان کے کاروبار میں ترقی کر رہی تھیں چنانچہ پورے خاندان نے یہ مان لیا کہ ان کے آنجہانی والد اپنے خاندان کی بہتری کے لیے عالم بالا سے ان تک اپنی ہدایات پہنچا رہے ہیں اور اس کا ذریعہ للت کو بنایا گیا ہے۔

بعد ازاں اس خاندان کو خودکشی کا عمل کرنے کو کہا گیا اور کہا گیا کہ یہ ان کے گناہوں کا کفارہ ہوگا، ڈائری میں درج متن کے مطابق پورا خاندان اسی طرح سے خود کو باندھ کر لٹکے گا اور اس کے بعد ان کے والد وہاں پہنچیں گے اور انہیں آزاد کردیں گے۔

اس اقدام سے پہلے خاندان کو کئی روز تک ایک خاص پوجا کرنے کا بھی کہا گیا جو ان کے گناہوں کو دھو سکے۔ پوجا کرنے کے ساتھ خاندان کے افراد خود کو پھانسی دینے کی تیاری بھی کرتے رہے جس کے شواہد سی سی ٹی وی فوٹیجز سے ملے۔ فوٹیج میں واقعے سے کچھ روز قبل خاندان کے کچھ افراد کو اسٹول اور تاریں وغیرہ گھر لاتے ہوئے دیکھا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کی موت کو حادثاتی موت قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ یہ سب لوگ مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، یہ ان کے عمل کا ایک حصہ تھا جس کے آخر میں انہیں یقین تھا کہ کوئی انہیں آ کر بچالے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور سب کے سب اپنی جان سے چلے گئے۔

ماہرین کے مطابق یہ ہولناک واقعہ ذہنی صحت کی ابتری کا نتیجہ تھا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ذہنی بیماریوں کی طرف مناسب توجہ نہ دی جائے اور بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ کس طرح تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں